کراچی کے مضافاتی علاقے گلشنِ حدید کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دھوپ چھن کر کھڑکی سے اندر آ رہی ہے۔ سامنے میز پر چائے کا کپ رکھا ہوا ہے اور دیوار کے ساتھ بچوں کی کتابیں ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں۔کمرے میں 23 سالہ ثنیہ فراز کی نظریں اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین پر جمی ہوئی ہیں۔ وہ ایک امریکی کلائنٹ کے لوگو کو آخری ٹچ دے رہی ہیں جو یہ ڈیزائن مکمل ہونے کے بعد انہیں ڈالرز میں ادائیگی کریں گے۔کسی وقت یہی ثنیہ روزانہ گھنٹوں باورچی خانے میں کھڑی رول، سموسے اور نگٹس تیار کیا کرتی تھیں۔ تین بچوں کی ماں ہونے کے ناتے ان کے لیے یہ سب کچھ سنبھالنا آسان نہیں تھا لیکن مجبوری میں یہ کام جاری رکھا ہوا تھا کیوں کہ آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔
ثنیہ بتاتی ہے کہ ’میں صبح سے شام تک باورچی خانے میں مصروف رہتی، محنت بہت زیادہ تھی اور آمدنی بہت کم۔ یہ سوچ کر دل گھبرا جاتا کہ کب تک ایسا چلے گا؟‘
اسی دوران ان کے ایک کزن نے انہیں گرافک ڈیزائننگ سیکھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ یہ سیکھنے کے بعد گھر میں رہتے ہوئے آسانی کے ساتھ پیسے کما سکتی ہیں۔ثنیہ نے زیادہ سوچے بغیر ایک نجی ادارے میں داخلہ لے لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شروع میں سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں کر بھی پاؤں گی یا نہیں، لیکن اساتذہ کی حوصلہ افزائی ملی اور پھر آہستہ آہستہ کام سیکھ لیا۔‘کورس کے دوران ہی انہیں چند چھوٹے پراجیکٹس ملنے لگے اور پھر آہستہ آہستہ آن لائن پلیٹ فارمز پر پروفائل بنا کر بیرون ملک کلائنٹس سے کام لینا شروع کر دیا۔ آج وہ دن میں تین سے چار گھنٹے کام کر کے گھر کا خرچہ بھی چلا رہی ہیں، بچوں کی دیکھ بھال بھی کر رہی ہیں اور ہر مہینے ڈالرز میں کمانے کا خواب بھی سچ کر چکی ہیں۔ثنیہ کا کہنا تھا کہ ’پہلے مہینے میں صرف دس ہزار روپے ہی کما پائی تھی مگر اب پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہوں کہ کسی پر بوجھ نہیں ہوں۔ اپنے یوٹیلٹی بِلز خود دیتی ہوں۔ بچوں کے سکول کے اخراجات بھی سنبھال لیتی ہوں اور شوہر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر گھر چلا رہی ہوں۔‘ثنیہ جیسی بیسیوں خواتین کراچی میں خاموشی سے یہ انقلاب لا رہی ہیں، وہ گھر میں رہتے ہوئے عالمی مارکیٹ کا حصہ بن چکی ہیں اور پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔یوٹیوب نے میری زندگی بدل دیکراچی کے ضلع وسطی کے علاقے نارتھ کراچی کی 21 سالہ آمنہ بی بی بی اے کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے صبح یونیورسٹی اور شام فری لانسنگ کے لیے وقف کر رکھی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں فری لانس کام کرنے والوں کی تعداد 23 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ (فوٹو: ایکس)ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے گھر کے حالات کافی خراب ہو چکے تھے۔ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، امی پہلے ہی گھریلو خاتون ہیں۔ میں نے تب یوٹیوب سے کانٹینٹ رائٹنگ سیکھنا شروع کی۔ ویڈیوز دیکھ دیکھ کر اس کام کو سمجھا اور آج کم از کم 40 سے 45 ہزار روپے مہینے کے کما لیتی ہوں۔‘آمنہ بی بی کہتی ہیں کہ ’یہ سب کچھ انٹرنیٹ کی بدولت ممکن ہوا۔ اگر یوٹیوب اور فری لانسنگ پلیٹ فارمز نہ ہوتے تو شاید کسی چھوٹے موٹے دفتر میں معمولی تنخواہ پر کام کر رہی ہوتی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب گھر بیٹھے ہو جاتا ہے۔ نہ دفتر جانے کی پریشانی، نہ سفر کی خواری۔ بس لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ اور محنت کی ضرورت ہے۔‘فری لانسنگ میں چیلنجزکراچی کو ملک کا معاشی حب کہا جاتا ہے لیکن اب یہی شہر پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ فری لانسنگ کی دنیا میں نوجوان خصوصاً خواتین بڑی تیزی سے آگے آ رہی ہیں۔ لیکن اس کامیابی کے باوجود راستہ اتنا ہموار نہیں۔ثنیہ فراز بتاتی ہیں کہ ’اصل مشکل تب پیش آتی ہے جب کام مکمل ہو جاتا ہے اور پیسے نکالنے کا وقت آتا ہے۔ بینکنگ سسٹم بہت پیچیدہ ہے، ادائیگیاں وقت پر نہیں آتیں، کبھی کوئی مسئلہ، کبھی کوئی کٹوتی۔ محنت کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ حکومت اگر ہماری مدد کرے تو یہ شعبہ اور آگے جا سکتا ہے۔‘واضح رہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں فری لانسنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ برس دسمبر کے دوسرے ہفتے میں فنانس ڈویژن میں وزیراعظم کی کمیٹی برائے آئی ٹی ایکسپورٹ ریمیٹینس کا اجلاس منعقد ہوا جس میں آئی ٹی کے شعبے سے آمدنی بڑھانے کے طریقوں پر غور کیا گیا۔اس اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں فری لانس کام کرنے والوں کی تعداد 23 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔کراچی کو ملک کا معاشی حب کہا جاتا ہے لیکن اب یہی شہر پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ (فوٹو: ایکس) سٹیٹ بینک کے مطابق ہر سال لاکھوں ڈالرز کی آمدنی صرف اس شعبے سے ہو رہی ہے اور کراچی اس کا سب سے بڑا مرکز ہے۔لیکن یہ وہ نوجوان ہیں جن کے لیے نہ کوئی بینر لگتا ہے، نہ جلسے ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں کسی ایوارڈ کی تقریب میں بلایا جاتا ہے۔ یہ خاموش انقلابی ہیں، جو اپنے کمروں میں بیٹھ کر دنیا بھر کے کلائنٹس سے کام لے کر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔آمنہ بی بی پُرامید لہجے میں کہتی ہیں کہ ’ہمیں صرف تھوڑا سا سہارا چاہیے، نظام بہتر ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ ہم کہاں تک جا سکتے ہیں۔‘ ثنیہ فراز، آمنہ بی بی اور ان جیسی کئی خواتین اس نئی دنیا کی مثال ہیں جہاں عزت کے ساتھ پیسے کمانا، خود مختار ہونا اور خواب پورے کرنا اب ممکن ہے۔ بس انٹرنیٹ کا کنکشن لیں، کوئی ہنر سیکھیں اور محنت کریں۔