فرانس نے ملک کے تحقیقی اداروں سے کہا ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث امریکہ کو چھوڑنے والے سائنسدانوں کو یہاں کیسے لایا جا سکتا ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اُس کو یہ معلومات اتوار کو مختلف ذرائع سے حاصل ہوئیں۔امریکہ میں صدر ٹرمپ کے دوسری مدت کے لیے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد سے ان کی حکومت نے جان بچانے والی تحقیق کے لیے وفاقی فنڈز میں کٹوتی کر دی ہے جبکہ صحت اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے سینکڑوں وفاقی کارکنوں کو برطرف کر دیا ہے۔فرانس کے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے وزیر فلپ بپٹسٹ نے ملک کے اداروں کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ’بہت سے معروف محققین پہلے ہی امریکہ میں اپنے مستقبل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔‘انہوں نے لکھا کہ ’ہم فطری طور پر ان میں سے ایک مخصوص تعداد کا خیرمقدم کرنا چاہیں گے۔‘فلپ بپٹسٹ نے فرانس کے تحقیقی اداروں سے منسلک محققین پر زور دیا کہ وہ اُن کو اس حوالے سے ٹھوس تجاویز بھیجیں کہ ’ترجیحی ٹیکنالوجی اور سائنسی شعبوں‘ میں کہاں اور کیسے افراد کی ضرورت ہے۔رواں ہفتے فرانس کے جنوب میں ایک ماسیلے یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ وہ امریکی محققین کے استقبال کے لیے ایک پروگرام ترتیب دے رہی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کے ارب پتی مشیر ایلون مسک کی نگرانی میں ایک جانب امریکہ میں وفاقی ملازمتوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت اور پیرس موسمیاتی معاہدے سے واشنگٹن کو نکالنے کا اعلان کیا۔احتجاج کے طور پر سائنسدانوں نے جمعے کو امریکہ کے متعدد شہروں میں ریلیاں نکالیں، جنوب مغربی شہر ٹولوس میں امریکی ریسرچرز کے بہت سے فرانسیسی دوستوں نے یکجہتی کے لیے مظاہرے میں شرکت کی۔امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ویکسین کے مخالف سمجھے جانے والے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کو محکمہ صحت اور انسانی خدمات کے اداروں سربراہ کے طور پر تعینات کرنے نے بھی بہت سے سائنسدانوں مایوس ہیں۔