نئی نویلی دلہن کو رخصتی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اُس کہکمرے میں اٹیچڈ واش روم نہیں ہے۔ صحن میں ایک واش روم ہے جو اُس کے علاوہ بھی کئی افراد کے استعمال میں ہے اور کئی بار تو باقاعدہ باری کے انتظار کے بعد یہ واش روم استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔
یہ سین یوں تو ’ہم نیوز‘ کے ڈرامے ’دل والی گلی میں‘ کا ہے، لیکن اِسے دیکھنے کے بعد ناظرین میں سے بہت سی خواتین کو اپنا اپنا وقت یاد آیا جب شادی کےبعد، خصوصاً شروع کے دنوں میں، وہ واش روم کی پرائیویسی کو ترستی تھیں۔
مڈل کلاس جوائنٹ فیملی میں بیاہ کر آنے کے بعد اب تک شاید کچن کے مسائل ڈسکس ہوئے ہیں لیکن کسی ڈرامے میں اٹیچڈ واش روم کا مسئلہ شاید پہلی بار ڈسکس ہوا ہے۔
اور ناظرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ’دل والی گلی میں‘ انھیں کافی پسند آ رہا ہے۔
واش روم سے شروع ہونے والے پرائیویسی کے مسائل، شادی شدہ زندگی کے ہر معاملے پر کیسےاثرانداز ہوتے ہیں؟ اس ڈرامے میں بظاہر ہلکے پھلکے لیکن انتہائی حساس طریقے سے اِن تمام مسائل پر بات کی گئی ہے۔
یہ ڈرامہ ’ہم ٹی وی‘ کے رمضان کے مہینے میں خصوصی طور پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں سے ایک ہے۔ بہترین سکرپٹ اور ہدایتکاری کے ساتھ مرکزی کردار ’مجی‘ اور ’ڈیجو‘ یعنی حمزہ سہیل اور سجل علی ایک ساتھ بےحد پسند کیے جا رہے ہیں۔
مجی اور ڈیجو نے شادی تو خاندان کی مخالفت کے باوجود محبت میں کی ہے لیکن پرائیویسی کا نہ ہونا اُن کی محبت کا سب سے بڑا امتحان بن گیا ہے۔
مجی سے کوئی گھر کا پتہ پوچھے تو کہتا ہے کہ ’برائٹ فیوچر سکول‘۔ کیونکہ اُن کی رہائش اسی سکول کی چھت پر بنے کمرے میں ہے جبکہ سکول اس کی اماں بطور پرنسپل چلاتی ہیں۔ مجی کی بہن، بہنوئی، سکول میں کام بھی کرتے ہیں اور اسی سکول کے رہائشی بھی ہیں۔
خاندان بھر کی مداخلت کے علاوہ سکول سٹاف اور بچے سب اس نئے جوڑے کے نئے سفر میں شامل ہیں۔
تو جس وقت ڈیجو لائن میں واش روم جانے کا اتنظار کرتی ہیں، تو کورس میں ’لب پہ آتی‘ گاتے بچے اُن کو مزید یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں نہیں کسی پبلک پلیس یعنی عوامی مقام پر رہتی ہے۔
’ہم جس فیملی سسٹم میں رہتے ہیں، اس میں کچھ نہیں ہو سکتا، یار ہم اپنی بیوی کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا نہیں کھا سکتے، کھل کے ہنس نہیں سکتے، ماں بہنیں انسیکیور ہو جاتی ہیں۔‘
مجی اپنے دوست کے سامنے یہ دُکھ روتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے زیادہ آزادی اور پرائیویسی تو انھیں شادی سے پہلے میسر ہو جاتی تھی۔ لیکن ایک شادی شدہ جوڑے کی زندگی پر ان سے زیادہ دوسروں کا قبضہ ہوتا ہے۔
ڈرامے کی ان قسطوں کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سے خواتین نے کہا کہ انھیں اُن کا اپنا وقت یاد آ گیا، جب انھیں سُسرال میں اٹیچڈ واش روم کے بغیر گزارہ کرنا پڑا۔
گیتو نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’صرف خواتین ہی باتھ روم کی اشد ضرورت کو سمجھ سکتی ہیں۔ خاص طور پر جب آپ کو پیریڈز ہوں اور اس مسئلے کے ساتھ کتنے موڈ سوئنگز اور الجھن سے ہمیں گزرنا پڑتا ہے۔ دوسروں کا پتہ نہیں لیکن میں ڈیجو کی حالت بالکل سمجھ سکتی ہوں۔‘
بنگلہ دیش میں پاکستانی ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟صنم تیری قسم: ماورا حسین کی 'فلاپ' فلم نے انڈیا میں دوبارہ ریلیز پر تین دن میں 25 کروڑ کا بزنس کیسے کیا’تن من نیل و نیل‘ کا آخری سین: ’ہجوم کے سامنے کوئی ہیرو نہیں ہوتا‘مدھو بالا جن کے حُسن کا شہرہ اُن کی اداکاری پر بھاری رہا: دلیپ کمار سے محبت مگر کشور کمار سے ’بےجوڑ‘ شادی کی کہانی
بی بی سینے کچھ ایسی خواتین سے بات بھی کی جنھوں نے شادی کے بعد ایسے گھر میں گزارہ کیا جہاں ان کے کمرے سے ملحق واش روم نہیں تھا۔
اسما بی بی ہائوس وائف ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ خاندان بھر کا واش روم سانجھا ہونے کی وجہ سے ان کے اپنے شوہر سے تعلقات بہت خراب رہے۔
اسما ایسے واش روم میں جانے اور نہانے سے کتراتی تھیں جہاں سب کو ان کی مکملروٹین کا پتہ چلتا رہے۔
’جہاں سب مکان بنایا جاتا ہے، وہاں شادی شادہ افراد کے لیے پرائیویسی والا باتھ روم کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ مجھے بری میں جو جوڑے دیے تھے وہ بیشک نہ دیتے، لیکن ایک باتھ روم بنوا دیتے۔‘
اسما نے زچگی اور بچے کی پیدائش کے بعد بھی صحن والا واش روم ہی استعمال کیا جو اُن کے لیے بہت مشکل تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ شادی کے پانچ سال کے بعد دوسرے بچے کی پیدائش پر انھوں نے ہی آخر کمرے سے ملحق گیلری میں ایک واش روم بنوایا اور سکھ کا سانس لیا۔
ایک اور خاتون نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور ان کی دو دیورانیاں وہی واش روم استعمال کرتی تھیں جو ان کے ساس سسر، نند اور دیور کے استعمال میں بھی تھا۔ ’بہوؤں میں سے کوئی بھی صبح نہا کر نکلتا تو ساس کا موڈ پورا دن آف رہتا۔ ساس کا کہنا تھا کہ ان کی جوان بیٹیوں کے ہوتے یوں ’گھر کا ماحول‘ خراب ہو رہا ہے۔ لیکن کبھی انھوں نے واش رومالگ سے بنوانے کا نہیں سوچا۔‘
جوائنٹ فیملی اور شادی شدہ زندگی سے باہر بھی، پاکستان میں پبلک پلیسز پر خواتین کے لیے واش روم نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ پیریڈز جیسے مسائل کے ساتھ انھیں مردوں سے کہیں زیادہ اس بات کیضرورت ہے کہ صاف ستھرے اور محفوظ واش روم اُن کی رسائی میں ہوں۔
پرائیویسی کا یہ مسئلہ گھروں کے اندر ہی نہیں باہر بھی مجی اور ڈیجو کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ڈیجو کی ناراضگی کے بعد مجی گھر والوں سے چھپ کر اسے ایک ہوٹل کے کمرے میں لے جاتا ہے تاکہ آزادی کے ساتھ ’ہنی مون‘ منا سکیں لیکن یہاں ہوٹل کا عملہ اُن سے نکاح نامہ طلب کرتا ہے اور کسی بھی صورت میں انھیں شادی شدہ ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔
دوست کی سفارش کے بعد کمرہ تو مل جاتا ہے لیکن جلد ہی پولیس آ کر پوچھ گچھ کرنے لگتی ہے اور نکاح نامہ نہ ہونے پر مشکوک مانتے ہوئے انھیں تھانے لے جاتی ہے۔
بظاہر یہ مضحکہ خیز صورتحال ہے لیکن اس کی سنجیدگی کا اندازہ تب ہوتا ہے جب یہ دکھائی دیتا ہے کہ دو پیار کرنے والوں کی شادی صرف اس لیے خطرے میں پڑ رہی ہے کہ کوئی ان کی شخصی آزادی کا احترام کرنے کو تیار نہیں۔
تھانے میں دھونس، جرائمپیشہ ہونے کا الزام اور ہراسانی کے بیچ، ہتھکڑی لگا مجی اور ڈیجو بیچارگی کی آخری حد کوچھو رہے ہوتے ہیں جب ایک سینیئر افسر اُن کی گردن چھڑواتا ہے اور ماتحتوں کی سرزنش بھی کرتا ہے۔
یہی سینیئر افسر دونوں سے وہ جملے بھی کہتا ہے جو کسی بھی شہری کو اس کے حقوق جاننے کو لازم ہیں۔
’گھر سے نکل کر آپ کو ہوٹل میں کمرہ لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی، سوال تو یہ ہے۔ آپ لوگ چانس دیتے ہیں۔ ہمارے کچھ بے ایمان لوگوں کو۔ وہ پھر فائدہ اٹھاتے ہیں، آپ کی اِن مجبوریوں کا۔ آئندہ آپ نے کبھی کسی پولیس والے سے بیک میل نہیں ہونا۔ قانون میں یہ کہیں نہیں لکھا کے ہم لوگ آپ کے نکاح نامے چیک کرتے پھریں۔‘
قانونی ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ پولیس کسی بھی جوڑے سے ان کی شادی کے ثبوت کے طور پر نکاح نامہ طلب نہیں کر سکتی کیونکہ یہ شخصی آزادی کے حق کے خلاف ہے۔ جبکہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ کراچی پولیس چیف نے خود نوٹیفیکیشن جاری کر کے کہا کہ پولیس عملے کو کسی سے نکاح نامہ طلب کرنے کی اتھارٹی نہیں ہے۔
خاتون وکیل فاطمہ بٹ کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہی کہنا تھا کہ عدالت میں بھی کسی مرد اور عورت کے باہم میاں بیوی ہونے کے دعوے کے بعد نکاح نامے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔
تو یوں باتوں باتوں میں ’دل والی گلی‘ میں وہ باتیں کہہ دی گئیں جو سننے کے بعد یہی لگا کہ یہ تو ہمارےہی دل کی بات ہے۔
مرکزی کرداروں کے گرد گھومتے حسّاس موضوعات کے علاوہ، ڈرامے کے سپورٹنگ رولز بھی جاندار ہیں۔ سالا بہنوئی کی محبت،مڈل کلاس بہن بھائیوں کی تکرار، انزائیٹی یا پریشانی میں بلا تکان کھانے کی عادت، گلی محلے کے پرائویٹ سکولز میں سٹاف کا استحصال، سب سنجیدہ باتیں اتنے دلفریب انداز سے کہہ دی گئی ہیں کہ ناظرین ہنس دیتے ہیں لیکن نم آنکھوں کے ساتھ۔
مدھو بالا جن کے حُسن کا شہرہ اُن کی اداکاری پر بھاری رہا: دلیپ کمار سے محبت مگر کشور کمار سے ’بےجوڑ‘ شادی کی کہانیصنم تیری قسم: ماورا حسین کی 'فلاپ' فلم نے انڈیا میں دوبارہ ریلیز پر تین دن میں 25 کروڑ کا بزنس کیسے کیا’تن من نیل و نیل‘ کا آخری سین: ’ہجوم کے سامنے کوئی ہیرو نہیں ہوتا‘بنگلہ دیش میں پاکستانی ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟