امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بوئنگ کو امریکی فضائیہ کا جدید ترین لڑاکا طیارہ ایف 47 اس کے ’نیکسٹ جنریشن ایئر ڈومیننس‘ (این جی اے ڈی) کی وژن کے تحت بنانے کے لیے اربوں ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔
این جی اے ڈی کو ایک 'فیملی آف سسٹمز' کی حکمت عملی قرار دیا گیا تھا جس کے مرکز میں ایک سکستھ جنریشن فائٹر ہو گا اور یہ چین اور روس کے خلاف مقابلہ کرنے کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو پائے گی۔
اس تیز رفتار سٹیلتھ طیارے ایف 47 کو صدر ٹرمپ نے اب تک کا مہلک ترین طیارہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق دنیا نے ایسا طیارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ اس طیارے کا پہلے ہی ایک ’ورژن‘ گذشتہ پانچ برس سے خفیہ طور پر استعمال میں ہے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایئرکرافٹ ’لاک ہیڈ مارٹن‘ کے ایف-22 کی جگہ لے گا، جسے جنگ میں بغیر پائلٹ کے ڈرون کے ساتھ ساتھ پرواز کرنے کے لیے بھی ڈیزائن کیا گیا ہے۔ معاہدے کی مجموعی قیمت ابھی تک نہیں بتائی گئی ہے۔
ٹرمپ نے اس دوران یہ بھی کہا کہ 'ہمارے اتحادی بار بار کالز کر رہے ہیں وہ بھی اسے خریدنا چاہتے ہیں۔'
تاہم یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ یہ طیارہ ریڈار پر نظر نہیں آئے گا، مصنوعی ذہانت سے لیس ہو گا اور ڈرونز کو بھی کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔
یوں یہ فضائی سفر میں تحفظ کے مسائل کا سامنا کرنے والے بوئنگ کی مصنوعات کی فروخت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
AFPاطلاعات کے مطابق اب تک کئی ممالک یورپی مینوفیکچررز جیسے 'ڈسالٹ' اور 'ساب' سے طیارے خریدنے پر غور کر رہے ہیں، چاہے ان طیاروں میں F-35 کی سٹیلتھ صلاحیتوں کی کمی ہو۔
سکستھ جنریشن کے ہوائی جہاز کا ڈیزائن تاحال ایک راز بنا ہوا ہے تاہم اطلاعات کے مطابق اس میں سٹیلتھ جیسی صلاحیتوں کے علاوہ اس طیارے میں اعلیٰ درجے کے سینسرز اور انجن بھی نصب ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ٹرمپ کی موجودگی میں اس طیارے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ اور سامنے کا لینڈنگ گیئر دکھایا گیا۔
ایئر فورس کے چیف آف سٹاف جنرل ڈیوڈ آلون نے کہا کہ 'ایف 22 کے مقابلے میں ایف 47 سستا ہو گا اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھے گا۔'
صدر ٹرمپ نے اس دوران یہ بھی کہا کہ تاحال کوئی ایسا طیارہ نہیں بنایا گیا اس سے مماثلت رکھتا ہو۔
ان کے مطابق پے لوڈ سے لے کر اس کی رفتار اور دوران پرواز اس کی حرکت یعنی پلٹنے، جھپٹنے کی صلاحیت بہت جداگانہ نوعیت کی ہے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکی فوج نے طیارے کے لیے نمبر 47 کا انتخاب کیا تھا، جسے انھوں نے ’خوبصورت نمبر‘ قرار دیا۔ وہ امریکہ کے 45ویں اور 47ویں صدر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جرنیلوں نے اس طیارے کے لیے یہ نام تجویز کیا ہے۔
امریکی F-35 یا روسی SU-57: جدید لڑاکا طیاروں کی کمی اور وہ پیشکش جس نے انڈین فضائیہ کو مشکل میں ڈال دیاامریکی ایف 35 کے پائلٹ کی 911 کو کال: ’ایک لڑاکا طیارہ کریش ہو گیا ہے۔۔۔ میں اُس کا پائلٹ ہوں‘ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت: صدر ٹرمپ کی پیشکش نے کیسے انڈیا کو مشکل صورتحال سے دوچار کیا؟کیا جے ایف 17 تھنڈر رفال طیاروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
بوئنگ کے ساتھ اس معاہدے کو لاک ہیڈ مارٹن کے لیے ایک بھاری نقصان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جب سے اسے نیوی کے لیے جدید بحری بیڑے پر رہنے والے سٹیلتھ فائٹرز بنانے کے مقابلے سے نکال دیا گیا تھا اور پینٹاگون میں کمپنی کے حوالے سے خدشات میں اس لیے بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ اس کی جانب سے ایف 35 فائٹر جیٹ کو اپ گریڈ کرنے میں تاخیری حربے اپنائے گئے تھے۔
کمپنی کے ففتھ جنریشن ایف-35 ’جوائنٹ سٹرائیک فائٹر‘ کی فروخت بیرون ملک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تناؤ کی وجہ سے بھی خطرہ میں پڑ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ انجینیئرنگ اور مینوفیکچرنگ ڈیولپمنٹ کنٹریکٹ 20 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ بوئنگ کی اس فتح کا مطلب یہ ہے کہ یہ جیٹ فائٹرز بنائے گی اور اربوں ڈالر کے کانٹریکٹس لے گی جو کئی دہائیوں تک رہ سکتے ہیں۔
بوئنگ کے دفاعی مصنوعات کے کاروبار کے شعبے کے سربراہ سٹیو پارکر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'ہمیں امریکی ایئر فورس کے لیے سکستھ جنریشن فائٹر ڈیزائن اور بنانے کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ اس مشن کی تیاری کے لیے ہم نے اپنے ڈیفنس بزنس میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔'
Getty Imagesامریکی ایف 35 کی فائل فوٹو
کینیڈا کے ساتھ شراکت داری سے تیار کیے جانے والے اس طیارے سے متعلق کینیڈا کے نئے وزیر اعظم مارک کارنی نے وزیر دفاع بل بلیئر سے کہا ہے کہ وہ اس کی خریداری پر نظرثانی کریں۔
پرتگال کے سبکدوش ہونے والے وزیر دفاع نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ملک امریکی حکومت کے حالیہ مؤقف کو دیکھ کر اپنے پرانے طیاروں کو تبدیل کرنے کے لیے F-35 کی خریداری پر دوبارہ غور کر رہا ہے۔
ہر F-35 کی قیمت تقریباً 85 ملین ڈالر یعنی 23 ارب پاکستانی روپے تک ہو گی۔ سپیئر پارٹس اور سپورٹ انفراسٹرکچر وغیرہ کو شامل کر کے اس کی قیمت 150 ملین ڈالر یعنی 42 ارب ڈالر پاکسانی روپے ہو جائے گی۔
اس وقت تک تقریباً 1,100 طیارے تیار کیے جا چکے ہیں اور یہ F-35s دنیا بھر میں 16 ممالک کی افواج کے زیرِ استعمال ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اب تک کئی ممالک یورپی مینوفیکچررز جیسے ’ڈسالٹ‘ اور ’ساب‘ سے طیارے خریدنے پر غور کر رہے ہیں، چاہے ان طیاروں میں F-35 کی سٹیلتھ صلاحیتوں کی کمی ہو۔
صدر ٹرمپ کے اہم اتحادی ایلون مسک اس سے قبل پائلٹ بردار طیاروں کے بارے میں اپنے شکوک کا اظہار کر چکے ہیں۔
ایلون مسک جمعے کو اس اعلان سے قبل پینٹاگون کے دورے پر تھے۔ اس دورے سے متعلق امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے کہا کہ اس کا مقصد لاگت میں کمی لانا ہے۔
ناقدین نے اس پروگرام کی لاگت اور ضرورت پر سوال اٹھایا ہے کیونکہ پینٹاگون ابھی تک اپنے موجودہ جدید ترین جیٹ F-35 کو مکمل طور پر تیاری کی دوڑ سے باہر نہیں نکلا ہے، جس پر ٹیکس دہندگان کو 1.7 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت ادا کرنا ہو گی۔
امریکی F-35 یا روسی SU-57: جدید لڑاکا طیاروں کی کمی اور وہ پیشکش جس نے انڈین فضائیہ کو مشکل میں ڈال دیاامریکی ایف 35 کے پائلٹ کی 911 کو کال: ’ایک لڑاکا طیارہ کریش ہو گیا ہے۔۔۔ میں اُس کا پائلٹ ہوں‘1965 کی جنگ: جب پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے دس جنگی طیارے تباہ کیےکیا جے ایف 17 تھنڈر رفال طیاروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟روس کے سوخوئی 35 لڑاکا طیارے جو ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں مشکل بنا سکتے ہیںبوئنگ کا بدترین سال: سنگین حادثات اور ’منافع کو تحفظ پر ترجیح‘ جیسے الزامات کے بعد کیا بوئنگ کی معجزاتی واپسی ممکن ہے؟