Getty Imagesسابق سعودی حکمران شاہ فیصل
’میں کبھی وہ دن بھول نہیں سکتی، میں اب بھی اُس درد اور تکلیف دہ لمحے کو محسوس کر سکتی ہوں جسے میں نے اپنے والد کے چہرے پر دیکھا تھا۔‘
یہ الفاظ ہیں سنہ 1975 میں سعودی حکمران شاہ فیصل کے وزیر پیٹرولیم احمد ذکی یمنی کی بیٹی ڈاکٹر مئی یمنی کے۔
ڈاکٹر مئی یمنی نے سنہ 2017 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے اپنے والد کے چہرے پر وہ دُکھ، درد اور تکلیف دیکھی اور اسے محسوس کیا تھا۔ میرے والد اپنے عزیز دوست اور اُستاد کے قریب ہی کھڑے تھے کہ جب اُن پر گولی چلی۔‘
یہ 25 مارچ 1975 کا دن تھا (ہجری اعتبار سے اس برس 12 ربیع الاول) کہ جب پیغمبرِ اسلام کی پیدائش کے دن سعودی عرب کے حکمراں شاہ فیصل لوگوں سے مل رہے تھے اور انتظار گاہ میں کویتی وفد بھی اُن سے ملنے کا منتظر تھا۔
شاہ فیصل کے بھتیجے فیصل بن مساعد اس کویتی وفد سے بات چیت میں مصروف تھے۔ جب وفد کی ملاقات کا وقت آیا تو شاہ فیصل اپنے بھتیجے فیصل بن مساعد کو بوسہ دینے کے لیے آگے بڑھے۔
اُسی وقت بھتیجے نے اچانک اپنے حبے سے ریوالور نکالا اور شاہ فیصل پر تین گولیاں چلائیں۔ قاتل کی جانب سے چلائی جانے والی پہلی گولی شاہ فیصل کی تھوڑی پر لگی، دوسری کان پر اور تیسری گولی سے وہ بچ گئے۔
ڈاکٹر مئی یمنی کے والد احمد ذکی یمنی بھی اُس لمحے شاہ فیصل کے قریب ہی موجود تھے اور وہ وفد سے اُن کا تعارف کروا رہے تھے۔
اس حملے کے بعد شاہ فیصل کو فوری طور پر ہسپتال منتقل تو کیا گیا مگر گہرے زخموں اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی جان نہ بچائی جاسکی اور وہ وفات پا گئے۔
جہاں شاہ فیصل پر گولی چلی وہاں سے چند ہی میل کے فاصلے پر 18 سالہ مئی یمنی اپنے والد کے فلیٹ میں اُن کی منتظر تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنے والد کے فلیٹ میں کتابوں سے بھرے ایک کمرے میں اُن کا انتظار کر رہی تھی کہ میرے والد اُس فلیٹ میں داخل ہوئے، اُن کے چہرے پر شدید تکلیف کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ وہ مُجھ سے ملے بنا ہیدوسرے کمرے میں چلے گئے میں ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ اُن کے پیچھے اُس کمرے میں جاؤں کہ میں نے انھیں شدید اُنچی آواز میں چلاتے ہوئے سُنا، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘
Getty Imagesسعودی حکمران شاہ فیصل کے وزیر پیٹرولیم احمد ذکی یمنی
ڈاکٹر مئی یمنی نے بتایا کہ ’جب شاہ فیصل کو گولی ماری گئی تو میرے والد اُن کے ساتھ ہسپتال گئے اور سارے معاملات کی نگرانی کی یہاں تک کے میرے والد نے ہی شاہ فیصل کی وفات کی تصدیق بھی کی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’شاہ فیصل کی وفات کی خبر ریاض میں بڑی تیزی سے ہر جانب پھیل گئی، گلی، محلے، سڑکیں اور میدان سب خالی، خاموش اور ویران ہو گئے۔ ہر جانب عجیب تکلیف دہ خاموشی چھا گئی۔‘
سعودی عرب کے شاہ فیصل کے اپنے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کی وجہ کیا تھی؟سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اثر و رسوخ کی کہانیسعودی تیل کی کہانی، یہ دولت کب آئی اور کب تک رہے گی؟قدیم جنگجو قبیلہ سعودی ولی عہد کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کیوں؟
فیصل بن عبدالعزیز کے حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق وہ 14 اپریل سنہ 1906 کو ریاض میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہ عبدالعزیز کے تیسرے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ طرفہ بنت عبداللہ کا تعلق عبدالوہاب کے مذہبی گھرانے سے تھا اور ان کی شادی شاہ عبدالعزیز کے ریاض کو فتح کرنے کے بعد ہوئی تھی۔ فیصل ابھی چھ ماہ کے تھے کہ ان کی والدہ وفات پا گئیں۔ ان کی پرورش ان کے نانا نانی نے کی اور ابتدائی تعلیم بھی ان ہی کی ذمہ داری رہی۔
سنہ 1919 میں برطانوی حکومت نے شاہ عبدالعزیز کو لندن مدعو کیا تو وہ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکے لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ ان کی جگہ ان کے بڑے بیٹے شہزادہ ترکی جائیں گے لیکن سپینش فلو کی وجہ سے شہزادہ ترکی کی وفات ہو گئی تھی۔ سو اب قرعہ شہزادہ فیصل کے نام نکلا اور وہ سعودی خاندان کے پہلے فرد بنے جنھوں نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ پانچ ماہ جاری رہا اور اسی دوران انھوں نے فرانس بھی دیکھا۔
ان کے والد انھیں اکثر اہم ذمہ داریاں سونپ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ فیصل ان ذمہ داریوں کو بالکل احسن طریقے سے نبھانے کے قابل ہیں۔ انھیں سنہ 1922 میں اسیر صوبے کے کنٹرول کے لیے مسلح دستوں کے ساتھ بھیجا گیا جو ایک کامیاب حکمتِ عملی تھی، 1926 میں انھیں حجاز کا وائسرائے بنایا گیا اور اس کے علاوہ وہ وزیرِ داخلہ بھی رہے۔
Getty Imagesشہزادہ فیصل سعودی خاندان کے پہلے فرد تھے کہ جنھوں نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔
سنہ 1953 میں شاہ عبدالعزیز کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے سعود کو شاہ بنا دیا گیا جبکہ فیصل ولی عہد بنے۔
شاہ سعود کی گرفت امورِ سلطنت پر اتنی نہیں تھی جتنی ان کے والد کی تھی اور نہ ہی وہ داخلی اور خارجہ پالیسی کا کوئی قابل ذکر تجربہ رکھتے تھے۔ شاہی خاندان کو جلد ہی اس کا احساس ہو گیا اور یہی وجہ تھی کہ شاہ سعود پر دباؤ ڈالا گیا کہ شہزادہ فیصل کو وزیرِ اعظم بنا کر انھیں زیادہ اختیارات دیے جائیں۔ اس وقت تک قریبی ہمسایہ ملک مصر میں جمال ناصر بادشاہ کا تختہ الٹ کر حکمران بن چکے تھے اور ڈر تھا کہ کہیں یہاں بھی ایسا ہی نہ ہو جائے۔
تاہم شاہ سعود اور شاہ فیصل کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری رہی اور دسمبر 1960 میں شہزادہ فیصل نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا، لیکن وہ ولی عہد تو تھے ہی۔ کچھ عرصہ بعد انھیں پھر خاندانی حمایت ملی اور وہ دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنے۔
آخر کار انھوں نے شاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اقتدار ان کے حوالے کر دیں۔ علما نے ان کے حق میں ایک نہیں بلکہ دو دو فتوے دیے کہ شاہ سعود ملک کی بھلائی کے لیے ان کے حق میں اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں۔ شاہی خاندان نے فتوے کی حمایت کی اور دو نومبر 1964 کو فیصل کو سعودی عرب کا فرمانروا بنا دیا گیا۔
شاہ فیصل ایک ’ترقی پسند‘
شاہ فیصل نے بادشاہ بنتے ہی پہلے تو خاندان کے لوگوں کو ساتھ ملا کر مستقبل میں بادشاہ چننے کے لیے کونسل بنائی تاکہ یہ مسئلہ مستقل طور پر ہی حل ہو جائے کہ کسے اگلا بادشاہ بنانا ہے اور اس کے بعد اس میں شاہی خاندان کے اہم لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا، جن میں ان کے سگے سوتیلے سبھی بھائی بھی شامل تھے۔
Getty Imagesشاہ فیصل اپنے وزیرِ داخلہ شاہ فہد اور کابینہ کے دوسرے اراکین کے ہمراہ مکہ میں
انھوں نے کئی پاپولر فیصلے کیے جن سے ان کو عوام میں بڑی پذیرائی ملی۔ ان ہی میں سے ایک یہ تھا کہ سعودی شہزادے اپنے بچوں کو باہر بھیجنے کی بجائے ملک کے سکولوں میں ہی تعلیم دلوائیں۔ اسی طرح انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا، ملک کی پہلی وزارتِ انصاف قائم کی اور پہلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔
سنہ 1962 میں بھی انھوں نے ایک حکمنامہ جاری کر کے ملک میں غلامی یا غلام رکھنے کے رواج کو بالکل ختم کر دیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری تھا۔
شاہ فیصل کو قتل کرنے والے فیصل بن مساعد کون تھے؟
فیصل بن مساعد شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی مساعد بن عبدالعزیز کے بیٹے تھے۔
فیصل بن مساعد چار اپریل 1944 کو پیدا ہوئے اور شاہ فیصل کے قتل میں انھیں 18 جون 1975 کو سزائے موت سنائی گئی اور کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ریاض کے مرکزی سکوائر میں اُن کا بھرے مجمعے کے سامنے سر قلم کر دیا گیا۔
فیصل مساعد کی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ نہیں لکھا گیا۔ فیصل بن مساعد تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے جہاں انھوں نے سان فرانسسکو سٹیٹ کالج میں داخلہ لیا۔ وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور یونیورسٹی آف کولیراڈو میں بھی زیرتعلیم رہے۔
شاہ فیصل کے قتل کے بعد ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ وہ ’دماغی طور پر عدم توازن‘ کا شکار ہیں۔ قتل کے بعد شاہی کابینہ کی جانب سے ایک بیان میں انھیں باقاعدہ طور پر ’پاگل‘ قرار دے دیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد سرٹیفیکیٹ دیا کہ فیصل بن مساعد دماغی طور پر بالکل ٹھیک ہیں۔
اُن کے ساتھ منشیات کے واقعات بھی جوڑے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ سعودی عرب واپس آئے تو ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا تھا کیونکہ وہ بیرون ممالک سعودی عرب کے لیے بے عزتی کا باعث بن رہے تھے۔
مئی یمنی نے شاہ فیصل پر قاتلانہ حملے کے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے اپنے والد کو اُس وقت سے زیادہ کبھی بھی تکلیف میں نہیں دیکھا تھا، میری آنکھوں کے سامنے اگر آج اپنے والد کا چہرہ آتا ہے تو میں کانپ اُٹھتی ہوں کہ میرے والد اُس وقت کس قدر تکلیف میں تھے۔'
احمد ذکی یمنی شاہ فیصل کی وفات کے بعد 11 سال تک سعودی عرب کے وزیرِ پیٹرولیم رہے۔
احمد ذکی یمنی کی بیٹی مئی یمنی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ چلی گئیں اور وہ آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی پہلی سعودی عرب تھیں۔
مئی یمنی نے ابتدائی تعلیم بغداد، مکہ اور لوزان میں حاصل کی۔ انھوں نے برائن ماور کالج، پنسلوانیا سے بشریات میں بی اے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے سوشل اینتھروپولوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
’عربوں کا نپولین‘ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود جنھوں نے جدید سعودی ریاست کی بنیاد رکھیجب 50 سال قبل عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیامشرق وسطیٰ سمیت دنیا کو حیران کرنے والے سعودی عرب اور ایران کے ’غیرمتوقع‘ معاہدے کا مطلب کیا ہے؟سعودی عرب کے شاہ فیصل کے اپنے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کی وجہ کیا تھی؟سعودی تیل کی کہانی، یہ دولت کب آئی اور کب تک رہے گی؟سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اثر و رسوخ کی کہانی