وفات پانے والے اوورسیز کے انشورنس کلیم میں تاخیر، ’رقم وقت پر ملتی تو اس حال میں نہ ہوتے‘

اردو نیوز  |  Jun 26, 2025

 شان محمد کا تعلق مالاکنڈ سے تھا اور وہ 2008 میں محنت مزدوری کی غرض سے سعودی عرب گئے تھے جہاں 2011 میں کام کے دوران ایک حادثے کے نتیجے میں ان کی جان چلی گئی۔ 

ضوابط کے مطابق ان کی میت پاکستان لائی گئی اور تدفین کا عمل مکمل ہوا۔ ان کے اہل خانہ کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان سے جاتے وقت انہوں نے پروٹیکٹوریٹ ڈائریکٹریٹ سے اپنے پاسپورٹ پر پروٹیکٹر لگوایا تھا۔ جو کہ ایک قانونی تقاضا بھی ہے اور پاکستانی ورکرز کے تحفظ کا ایک ذریعہ بھی۔

پروٹیکٹر لگواتے وقت 2500 روپے انہوں نے انشورنس کی مد میں جمع کروائے تھا جس کا مطلب ہے کہ وہ اگر کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں یا ان کے خاندان کو 10 لاکھ روپے تک کی رقم بطور انشورنس ملے گی۔ 

ان کے بیٹے نے بیورو آف امیگریشن میں کلیم فائل کیا اور رقم کے حصول کے لیے تگ و دو کرنے لگا۔ لیکن 15 سال گزر جانے کے باوجود پروسیجرل کارروائیوں اور بیوروکریسی کے سرخ فیتے نے اپنے والد کی انشورنس کی رقم حاصل نہیں کرنے دی۔ 

ان کے مطابق انشورنس کلیم کی فائل 2011 میں مکمل ہو چکی تھی، دستاویزات سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کو بھیج دی گئیں، لیکن اس کے بعد سے آج تک ادارے کی طرف سے کوئی باضابطہ جواب نہیں آیا۔ 

یہ کہانی صرف شان محمد یا ان کے خاندان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان سے ہر سال لاکھوں مزدور روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کی واپسی تابوت میں ہوتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو معذوری کے ساتھ لوٹتے ہیں۔

ان میں سے اکثر تو اس بات سے ویسے ہی لاعلم ہیں کہ وہ بیورو آف امیگریشن کے ذریعے سٹیٹ لائف کارپوریشن کے ساتھ انشورڈ ہیں۔ جن کو اس بات کا علم ہے وہ جب کلیم دائر کرتے ہیں تو پھر کئی برس تک انہیں رقم کے حصول کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ 

 حکومت پاکستان کے تحت بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ ان تمام ورکرز سے بیرون ملک روانگی سے قبل 25 سو روپے وصول کرتا ہے، جس کے بدلے انشورنس کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ مگر یہ وعدہ بہت سے افراد کے لیے صرف کاغذوں میں ہی نظر آتا ہے، خاص طور پر جب متاثرہ خاندانوں کو برسوں اداروں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں۔

بیورو کے پاس ان 244 پاکستانی ورکرز کے انشورنس کلیمز تاحال زیر التوا ہیں (فوٹو: پکسابے)اردو نیوز کو دستیاب بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھی بیورو کے پاس ان 244 پاکستانی ورکرز کے انشورنس کلیمز تاحال زیر التوا ہیں جو دوران ملازمت حادثات کا شکار ہو کر وفات پا گئے جن کی مجموعی رقم 24 کروڑ 40 لاکھ روپے ہے۔ 

اسی طرح معذوری کے کلیمز میں صورتحال مختلف نہیں۔ اس وقت 142 کلیمز زیر التوا ہیں، جن میں سے تین کلیمز کو مسترد کر دیا گیا ہے، اور دو کلیمز ایسی فائلوں میں درج ہیں جن میں ریکارڈ یا معلومات موجود نہیں۔ اگرچہ ان کلیمز کی رقم درج نہیں ہے لیکن حکام کے مطابق یہ رقم بھی 14 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ 

بیرون ملک وفات پانے والے والوں اور انشورنس کلیم کرنے والوں کا تعلق بھی ملک کے ہر علاقے سے ہے، تاہم ان میں سے زیادہ تر مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندانوں کو اس انشورنس کی رقم زیادہ اور جلدی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ سنبھل سکیں اور کمائی کرنے والے گھر کے فرد کے بعد اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں۔ 

موت کے بعد کیے جانے والے کلیمز میں مالاکنڈ سرفہرست ہے جہاں 48 کلیمز زیر التوا ہیں جن کی مالیت 4 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے۔ کراچی میں 46 کلیمز (4 کروڑ 60 لاکھ روپے)، لاہور میں 38 کلیمز (3 کروڑ 80 لاکھ روپے)، پشاور میں 26 کلیمز (2 کروڑ 60 لاکھ روپے)، راولپنڈی میں 6 کلیمز (60 لاکھ روپے)، ملتان میں 8 کلیمز (80 لاکھ روپے)، ڈی جی خان میں 2 کلیمز (20 لاکھ روپے)، سیالکوٹ میں 5 کلیمز (50 لاکھ روپے) اور دیگر علاقوں میں 65 کلیمز (6 کروڑ 50 لاکھ روپے)  التوا میں ہیں۔

خیال رہے کہ دو سال قبل تک التوا کی کل رقم 16 کروڑ تھی جو دو سال میں دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ 

اس حوالے بیورو آف امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ کلیمز بوجوہ کئی برس سے اٹکے ہوئے لیکن ہر ماہ درجنوں کلیمز کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے جن کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔  

بیرون ملک وفات پانے والے والوں اور انشورنس کلیم کرنے والوں کا تعلق بھی ملک کے ہر علاقے سے ہے (فوٹو: اے ایف پی)جنوری 2025 میں ادارے نے 115 کلیمز نمٹائے، جس میں 11 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ادائیگی ہوئی۔ جنوری 2025 میں  جن کلیمز کو نمٹایا گیا، ان میں راولپنڈی سب سے آگے رہا جہاں 35 کلیمز پر 3 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئج۔ ملاکنڈ سے 24 کلیمز (2 کروڑ 40 لاکھ روپے)، لاہور سے 19 کلیمز (ایک کروڑ 90 لاکھ روپے)، کراچی سے 12 کلیمز (ایک کروڑ 20 لاکھ روپے)، پشاور سے 11 کلیمز (ایک کروڑ 10 لاکھ روپے)، ملتان سے 7 کلیمز (70 لاکھ روپے)، ڈی جی خان سے 3 کلیمز (30 لاکھ روپے) اور سیالکوٹ سے 4 کلیمز (40 لاکھ روپے)  ادا کیے گئے۔ 

اگر معذوری کے زیر التوا کلیمز کی ڈویژن وائز بات کریں تو ملاکنڈ ایک بار پھر سرفہرست ہے جہاں 35 کلیمز اب بھی زیر التوا ہیں، جن میں سب سے پرانا کیس 2007 کا ہے۔ راولپنڈی میں 22 کلیمز، پشاور میں 18 کلیمز، لاہور میں 10 کلیمز، کراچی میں 3 کلیمز، سیالکوٹ میں 2 کلیمز اور دیگر علاقوں سے 52 کلیمز زیر التوا ہیں۔ 

حکام کے مطابق جنوری کے مہینے میں معذوری کے 45 کلیمز نمٹائے گئے، جن کی مجموعی ادائیگی ایک کروڑ 6 لاکھ 50 ہزار روپے تھی۔ معذوری کے معاوضے کی رقم مختلف کیسز میں ایک لاکھ سے 5 لاکھ روپے تک رہی۔

جنوری 2025 میں معذوری کے جن 45 کلیمز کی ادائیگی کی گئی ان میں ملاکنڈ سے 12 کلیمز پر 32 لاکھ روپے، راولپنڈی سے 15 کلیمز پر 37 لاکھ 50 ہزار روپے، پشاور سے 6 کلیمز پر 15 لاکھ روپے، لاہور سے 5 کلیمز پر 12 لاکھ 50 ہزار روپے، کراچی سے 1 کلیم پر 2 لاکھ روپے اور دیگر علاقوں سے 6 کلیمز پر 8 لاکھ 50 ہزار روپے کی ادائیگی شامل ہے۔

حکام کے مطابق سب سے پرانے کلیمز بھی سٹیٹ لائف انشورنس میں برسوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)حکام کا کہنا ہے کہ اصل رکاوٹ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی سست پراسیسنگ، دستاویزات کی جانچ میں تاخیر اور ورثا کی شناخت سے متعلق پیچیدہ مراحل ہیں۔ سب سے پرانے کلیمز بھی اسی ادارے میں برسوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ 

حکام نے بتایا ہے کہ سائلین آتے ہیں اور دہائی دیتے ہیں کہ ’اب 15 سال ہو گئے، ہمیں صرف انتظار اور وعدے ملے۔ چھوٹے بہن بھائی مزدوری کرتے ہیں، اپنی ماں کا علاج بھی قرض لے کر کروایا۔ اگر وہ 10 لاکھ روپے کلیم ہمیں وقت پر مل جاتا تو شاید ہم آج اس حال میں نہ ہوتے۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ 2007 سے 2010 تک کے پرانے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہر مہینے انشورنس کلیمز کی پیش رفت پر مبنی رپورٹ تیار کی جا رہی تاکہ اس عمل کو شفاف اور جوابدہ بنایا جا سکے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More