اغوا کے بعد بازیاب ہونے والی چنگیز خان کی وہ اہلیہ جن کے مشوروں اور مدد سے منگول سلطنت کی بنیاد رکھی گئی

بی بی سی اردو  |  Jun 30, 2025

Getty Images

بورتے کی تیموجِن (چنگیز خان) سے شادی کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اُن کا اغوا ہو گیا۔

ایرِن بلیک مور نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’یہ اغوا مرکِت قبیلے کی ایک عورت ہوئلون کے بورجیگن قبیلے کے سربراہ یسوگئی کے ہاتھوں اٹھائے جانے کا بدلہ تھا۔ ہوئلون بعد میں تیموجن کی ماں بنیں لیکن تیموجن نے بورتے کو چھڑا لیا، جنگ ہوئی، مرکِت ہارے اور ان کا علاقہ فتح کر لیا۔¬

بورتے اور تیموجن کا ملاپ، اِغوردا راشوِلز کی کتاب ’دی سیکرٹ ہسٹری آف دی منگولز‘ میں یوں بیان ہوا ہے کہ ’جب لوٹ مار جاری تھی، تیموجن گھبراہٹ میں بھاگتے لوگوں کے درمیان گھومتے ہوئے پکار رہے تھے: بورتے! بورتے!‘

دنیا کے اہم تاریخ واقعات سے متعلق دلچسپ رپورٹس کے لیے بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل پر کلک کیجیے

’جب بورتے نے تیموجن کی آواز کو پہچانا، تو وہ دوڑتی ہوئی ان کی طرف آئیں۔ اگرچہ رات کا وقت تھا، لیکن چاندنی میں بورتے نے تیموجن کی لگام اور رسّی کو پہچان لیا اور اسے تھام لیا۔ تیموجن نے ان کی طرف دیکھا، بورتے کو پہچانا، اور وہ ایک دوسرے کی بانہوں میں سما گئے۔‘

مرکِتوں کے خلاف یہی جیت تیموجن کی اگلی کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

تیموجن سے چنگیز خان

قبیلوں کی فتوحات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور 13ویں صدی کی ابتدا میں تیموجن 'چنگیز خان' کہلائے اور منگول سلطنت کے بانی بنے۔

رچرڈ بریسلرنے اپنی کتاب ’دی تھرٹینتھ سینچری: اے ورلڈ ہسٹری‘ میں لکھا ہے کہ چنگیز خان نے زیادہ تر اپنی حیثیت جنگوں کے ذریعے بنائی۔

’وہ کسی باقاعدہ فلسفے سے واقف نہیں تھے۔ ان کے نظریات کا سب سے قریب تر اظہار ایک قول میں ملتا ہے جو، سٹورٹ لیگ کی کتاب ’دی ہارٹ لینڈ‘ کے مطابق اُن سے منسوب ہے: ’انسان کی خوشی دشمن کو روندنے، اسے جڑ سے اکھاڑنے، اس کا سب کچھ چھین لینے، اس کے نوکروں کو رُلانے، اور اپنی بیویوں کی ناف اور سینے پر بستر بچھانے، ان کے ہونٹ چوسنے اور بوسے لینے میں ہے۔‘

چنگیز خان ساری زندگی اسی نظریے پر عمل کرتے رہے۔

بلیک مور لکھتی ہیں کہ ’وہ فتوحات کرتے، علاقوں کو تاراج کرتے رہے۔ ان کی کئی شادیاں ہوئیں، سیکڑوں کنیزیں تھیں، مگر بورتے اُن کی پہلی، پسندیدہ اور بااثر ترین بیوی رہیں، جو نہ صرف ان کے دل میں، بلکہ سلطنت کے امور میں بھی مرکزی مقام رکھتی تھیں۔‘

مائیکل بِران اورہوڈونگ کِم کی تدوین کردہ ’دی کیمبرج ہسٹری آف دی منگول ایمپائر‘ سے علم ہوتا ہے کہ منگول معاشرے میں خواتین کا سیاسی، سفارتی اور جنگی سطح پر اہم کردار رہا۔

’وہ خانز کو مشورے دیتیں، سفیروں کا استقبال کرتیں یا خود سفارت پر جاتیں، اور دیگر علاقوں کے حکام سے رابطےکرتی تھیں۔ وہ ریاستی مجالس (قُرلتائے) میں شریک ہو کر جنگی منصوبے، پالیسی اور جانشینی کے فیصلوں میں شامل ہوتی تھیں۔ اگرچہ وہ خود خان منتخب نہیں ہو سکتی تھیں، مگر خان کی بیوہ ہونے کی صورت میں ریاستی اختیارات استعمال کر سکتی تھیں۔‘

’چنگیز خان کی والدہ ہوئیلون سلطنت کے ابتدائی دور کی نہایت بااثر خاتون تھیں۔ یسوگئی کی موت کے بعد وہ غربت میں بچوں کی پرورش کرتی رہیں، اور تیموجن کو سیاسی بصیرت دی لیکن بورتے ایک کلیدی کردار کی حامل تھیں۔‘

Getty Imagesچنگیز خان تخت پر اپنی اہلیہ کے ہمراہبورتے کے اغوا اور بازیابی کی کہانی

بورتے 1161 میں اولخوند قبیلے میں پیدا ہوئی تھیں جو تیموجن (چنگیز خان کا اصل نام) کے بورجیگن قیبلے کا حلیف تھا۔ ان دونوں کی بچپن ہی میں منگنی ہو گئی تھی، جب کہ شادی اس وقت ہوئی جب بورتے کی عمر 17 اور چنگیز کی عمر 16 برس تھی۔ بورتے کو سمور کی پوستین بطور جہیز دی گئی۔

شادی کے چند ہی دن بعد مرکت قبیلے نے اس جوڑے کے کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ تیموجن اپنے چھ کم عمر بھائیوں اور ماں سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تاہم اس کی دلھن پیچھے ہی رہ گئی۔

مرکت قبیلے کے افراد اصل میں بورتے ہی کے لیے آئے تھے۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ تیموجن کی ماں ہوئلن مرکت قبیلے سے تعلق رکھتی تھی اور اسے تیموجن کے باپ نے اغوا کر کے اپنی بیوی بنا لیا تھا۔ مرکت برسوں بعد بھی اس بات کو بھلا نہیں پائے تھے اور اب وہ بورتے کو اٹھا کر ہوئلن کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔

بورتے ایک بیل گاڑی میں چھپ گئی لیکن مرکتوں نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور گھوڑے پر ڈال کر ساتھ لے گئے۔

تیموجن نے اپنی دلہن کی بازیابی کی کوششیں جاری رکھیں۔ خانہ بدوش مرکت قبیلہ وسطی ایشیا کی ہزاروں میل کے رقبے پر پھیلی چراگاہوں میں جہاں جہاں جاتا، تیموجن کچھ فاصلے سے اُن کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔ اس دوران انھوں نے اِدھر اُدھر سے ساتھی بھی اکٹھا کرنا شروع کر دیے۔

اُن کا ایک قول مشہور ہے کہ ’مرکتوں نے صرف میرا خیمہ ہی سُونا نہیں کیا بلکہ سینہ چیر کر میرا دل بھی نکال لے گئے ہیں۔‘

بالآخر جب مرکت قبیلہ 400 کلومیٹر دور سائبیریا کی بیکال جھیل کے قریب خیمہ زن ہوا تو تیموجن نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ انتہائی ڈرامائی چھاپہ مار کارروائی میں بورتے کو دشمنوں کے قبضے سے چھڑوا لیا۔

بعض تاریخ دانوں کے مطابق یہ واقعہ چنگیز خان کی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ اسی واقعے نے انھیں اس راستے پر ڈال دیا جس پر چل کر آگے وہ فاتحِ عالم بنے۔

بورتے اور سلطنت کی بنیاد

دی کیمبرج ہسٹری میں لکھا ہے کہ ’بورتے کی شادی 1178 میں تیموجن سے ہوئی۔‘

کیٹیا رائٹ اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ بورتے قونقیراط قبیلے کے سردار دائی سچین کی بیٹی تھیں۔

یہی شادی تیموجن کی سیاسی زندگی کی ابتدا بنی۔ اس رشتے نے انھیں ’ایک معزز خاندان سے شناخت دلائی اور انھیں اپنے گرد ایسے دوستوں کا حلقہ بنانے کا موقع ملا جو ان کے اقتدار کے سفر میں ان کے ساتھ رہے۔ یہ شادی تیموجن کے لیے خاندان قائم کرنے کا ذریعہ بھی بنی، جو منگول سیاسی اتحادوں کے لیے انتہائی اہم تھا۔‘

دی کیمبرج ہسٹری کے مطابق ’بورتے نے تیموجن کو سیاسی مشورے دیے اور نو صحت مند بچے پیدا کیے: پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے۔ ان کے بیٹے (جوچی، چَغَتائی، اوغدے اور تولی) سلطنت کے مختلف حصوں کے حاکم بنے، اور اوغدے چنگیز خان کے جانشین مقرر ہوئے۔ چھوٹے درجے کی بیویوں کے بیٹوں کو ایسی حیثیت نہ ملی۔‘

ٹموتھی مے نے ’دی منگول ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ صرف بورتے کے بیٹے ہی تیموجن (چنگیز خان) کے بعد خان بننے کے امیدوار سمجھے گئے۔

ختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتےقبلائی خان: چین پر قبضہ کر کے اسے دنیا سے جوڑنے والا حکمران

دی کیمبرج ہسٹری سے پتا چلتا ہے کہ ’بورتے کی بیٹیوں (قوجین، چیچیگین، علائقہ، تومیلون اور آل آلتان) کی شادیاں ایسے قبیلوں میں ہوئیں جن سے منگول سلطنت کو سیاسی اور فوجی طاقت ملی، جیسے ایلکرز، اویرات، اوغوت، قونقیراط اور ایغور۔‘

’ان رشتوں نے قریبی ریاستوں کو بغیر جنگ کے سلطنت میں شامل کرنے میں مدد دی۔ ان کے شوہروں نے بعد میں فوجی مہمات میں بھی حصہ لیا، جیسے خوارزم پر حملہ (1219) اور شمالی چین کی فتوحات (1211–1215، 1217–1223)۔'

مے کے مطابق بورتے نے کئی یتیم بچوں کو بھی گود لیا، جن میں قتقو نویان اور بودا نویان شامل تھے اور انھیں اپنے بچوں کی طرح پالا۔ اس عمل نے بطور ماں ان کی ساکھ اور سماجی مرتبہ بہت بلند کر دیا۔

Getty Imagesقبیلوں کی فتوحات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور 13ویں صدی کی ابتدا میں تیموجن ’چنگیز خان‘ کہلائے اور منگول سلطنت کے بانی بنےبورتے: منگول سلطنت کی خاموش معمار

این براڈبرج اپنی کتاب ’ویمن اینڈ دی میکنگ آف دی منگول ایمپائر‘ میں لکھتی ہیں کہ بورتے کی اہمیت ہر آنکھ کو نظر آتی ہو گی۔

بورتے اپنے ساتھ جہیز کی صورت میں ایک زیرک اور فہیم ذہن لے کر آئیں۔ انھوں نے ’اپنی ساس ہوئیلون کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بانٹیں، جن میں انسانی وسائل اور پورے کیمپ کی معیشت کا انتظام شامل تھا۔‘

’بورتے بڑی بیوی کے طور پر نہ صرف تیموجن کے کیمپ اور مویشیوں کی نگران تھیں بلکہ اپنے ذاتی وسائل، نوکروں، باندیوں، چھوٹی بیویوں اور شاہی محافظوں کی بھی نگرانی کرتی تھیں۔ یہ تعداد ہزار سے بھی تجاوز کر سکتی تھی۔ منگول روایت کے مطابق وہ اپنے شوہر اور مہمانوں کی میزبانی کی ذمہ دار تھیں، اور ان کے خیمے ہی میں کئی اہم معاہدے اور اتحاد طے پائے۔‘

’وہ تیموجن کو پختہ مشورے دیتی تھیں جنھیں سنجیدگی سے لیا جاتا اور ان کا خاندان سیاست اور جنگ میں چنگیز خان کا سرگرم حامی تھا۔‘

منگول سماج میں ان کا بلند مقام تھا۔ ان کے مطابق چنگیز خان انھیں ’سیاست اور جنگی معاملات پر مشورہ کے لیے بلاتے تھے۔‘

انھوں نے یہ اعتماد دانش مندی سے نبھایا۔ مثال کے طور پر چنگیز خان کے قریبی دوست جاموکا، جنھوں نے اغوا کے بعد بورتے کی بازیابی میں مدد دی تھی، جب رفتہ رفتہ سیاسی دشمن بنتے گئے تو بورتے نے تیموجن کو دوستی توڑنے کا مشورہ دیا۔ 1204 میں تیموجن نے جاموکا کو شکست دی اور قتل کروا دیا۔

مے لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ بورتے نے پورے ایشیا میں پھیلے تجارتی راستوں کا انتظام سنبھالا اور ان راستوں پر سفر کرنے والے حکام اور تاجروں کی مشیر کے طور پر بھی کام کیا۔ تاریخی روایات کے مطابق اس حیثیت میں ان کے پاس خاصا اثر و رسوخ تھا، جس کے کئی واقعات دستاویزی شکل میں محفوظ ہیں۔

ایک اور موقع پر خان کے قریبی مصاحب تیب تنگگری نے تیموجن کے بھائی کی توہین کی۔ بورتے نے فوری ردعمل دیا اور شوہر سے اصرار کیا کہ انھیں سخت سزا دی جائے۔

بلیک مور نے مؤرخ ڈونا ہامل کے حوالے سےلکھا ہے کہ: ’اس موقع پر خان نے بورتے کا مشورہ مانا، عوام میں امن بحال کیا اور اپنی قیادت کو مستحکم کیا۔‘

بلیک مور کے مطابق بورتے سفیر، مشیر اور منتظم کے کردار میں نظر آئیں۔ ’انھوں نے اپنی حیثیت سے نہ صرف سلطنت میں ملکہ کا کردار متعین کیا بلکہ اس افواہ کو بھی زائل کیا کہ اُن کا پہلا بیٹاجوچی دراصل مرکت قبیلے کے اغوا کار کا بیٹا ہے، چنگیز خان کا نہیں۔‘

’اگرچہ بورتے کی زندگی کے کئی پہلو تاریخ کے پردے میں چھپے ہیں لیکن وہ ایک مثال ہیں اس بات کی کہ سلطنت کے قیام اور روزمرہ نظم و نسق میں عورتوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا۔‘

براڈبرجلکھتی ہیں کہ ’چنگیز خان کو نہ صرف ایک ایسی بیوی ملی جس پر وہ اعتماد کر سکیں بلکہ پوری سلطنت کو ایسی عورتوں کی ضرورت تھی۔ اگر منگول سلطنت میں یہ عورتیں نہ ہوتیں، تو شاید سلطنت بھی نہ ہوتی۔‘

’وہ تمام عمر چنگیز خان کی بڑی بیوی رہیں۔ بچوں کی پیدائش کی تاریخوں سے واضح ہے کہ وہ زیادہ تر وقت اپنے شوہر کے ساتھ رہیں، تاہم جب وہ ان کے ساتھ نہیں تھیں وہ سلطنت کے کچھ حصے خود سنبھال رہی تھیں۔‘

براڈبرج نے انھیں چنگیز خان کی زندگی کی سب سے بااثر عورتوں میں شمار کیا ہے، اور ان سے متعلق کہانیاں اس کی گواہ ہیں۔

جب چنگیز خان فتوحات میں مصروف ہوتے، بورتے منگولیا میں رہ کر سلطنت کے انتظام میں مدد دیتی تھیں۔ ان کی ذاتی زمینیں خِرلن دریا کے کنارے واقع تھیں۔

مے کے مطابق بورتے کی موت 1230 میں اپنے شوہر چنگیز خان کے بعد ہوئی۔ اپنی زندگی کے دوران میں وہ منگول قوم کی نہایت محترم اور باوقار شخصیت بن چکی تھیں۔ وہ پوری سلطنت کے لیے ایک قابلِ فخر ماں کا کردار ادا کرتی رہیں۔ ایسا تصور جسے ان کے سگے اور منھ بولے بچوں کے ساتھ تعلقات نے مزید مضبوط کیا۔

’بورتے نے نہ صرف شوہر کی مشیر کے طور پر کام کیا بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی تربیت دی کہ وہ ریاستی امور میں نمائندہ، سفیر اور سرگرم کردار ادا کرنے والی بنیں۔‘

ایشیائی موضوعات پر لکھنے والے مصنف میکس لُو کے مطابق موجودہ منگولیا میں واقع ہولون اور چاہان جھیلیں دھوپ میں ایک دوسرے کا خوبصورت ساتھ دیتی ہیں اور منگولوں کے لیے مقدس سمجھی جاتی ہیں۔ اوراس کی وجہ یہ ہے کہ چنگیز خان اور ملکہ بورتے کی شادی یہیں ہوئی تھی، جو اُن کے عمر بھر کے رشتے کی علامت بن گئی۔

چنگیز خان، کروڑوں کے باپ مگر اپنے بیٹے کے نہیںختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتےقبلائی خان: چین پر قبضہ کر کے اسے دنیا سے جوڑنے والا حکمرانایوبی شہزادوں کے دربار سے منگول خیموں تک، ایک شہزادی کی کہانیچنگیز خان کیڑوں سے بھرا چھکڑا لے کر کیوں پھرتے تھے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More