انڈین پارلیمان میں ’آپریشن سندور‘ پر بحث اور حکومتی وضاحتوں سے جنم لیتے نئے سوال: ’اگر پاکستان واقعی گھٹنے ٹیکنے کو تیار تھا، تو آپ کیوں جھکے؟‘

بی بی سی اردو  |  Jul 29, 2025

Getty Imagesوزیر اعظم نریندر مودی نے انڈین وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کی جانب انڈین پارلیمان کو دی گئی بریفنگز کو سراہا ہے

22 اپریل کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر شدت پسندوں کے حملے اور اس کے تناظر میں مئی کے اوائل میں انڈیا اور پاکستان کے بیچ فضائی جھڑپوں کو تقریباً تین ماہ ہونے کو ہیں لیکن انڈیا میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اِس ضمن میں پوچھے گئے سوالات تاحال جواب طلب ہیں۔

اس حوالے سے حزب اختلاف کی جماعتوں کی شدید تنقید اور بارہا مطالبات کے بعد حکومت نے انڈین پارلیمان کے ایوان زیریں کا اجلاس گذشتہ روز (پیر) طلب تو کیا مگر اس میں اعلی حکومتی وزرا کی تقریروں اور پیش کی گئی وضاحتوں نے بظاہر معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا کام کیا ہے۔

اس اجلاس کا آغاز شور شرابے سے ہوا جس کے باعث سپیکر کو ہاؤس کی کارروائی دو مرتبہ معطل کرنی پڑی اور پھر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ’آپریشن سندور‘ اور متعلقہ معاملات کے حوالے سے حکومت کا مؤقف ایوان کے سامنے پیش کیا، جس کی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے تو تعریف کی گئی مگر اپوزیشن کی جانب سے اسے آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

اگرچہ اپوزیشن جماعتیں ’آپریشن سندور‘ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تفصیل براہ راست وزیر اعظم نریندر مودی کی زبانی سُننا چاہتی تھی لیکن وہ پارلیمان کے اس اجلاس میں پہلے روز موجود نہیں تھے جس کے باعث اپوزیشن ارکان نے کافی احتجاج کیا۔

وزیر اعظم مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے پارلیمان سے خطابات کو سراہا ہے۔ انھوں نے وزیر دفاع کی تقریر کا کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ جی نے ایک بہترین تقریر کی، جس میں انڈیا کے سکیورٹی آپریٹس کی کامیابی اور آپریشن سندور میں ہماری مسلح افواج کی ہمت کا بصیرت انگیز نقطہ نظر پیش کیا گیا۔‘

اس کے ساتھ ہی انھوں نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی تقریر کا کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر جی کی تقریر شاندار تھی۔ انھوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح دنیا نے آپریشن سندور کے ذریعے دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے کے بارے میں انڈیا کے نقطہ نظر کو واضح طور پر سُنا ہے۔‘

وزیر اعظم کی ان توصیفی کلمات سے قطع نظر حزب اختلاف نے پارلیمان میں مزید نئے سوالات کھڑے کیے اور وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جہاں مذکورہ دونوں وزرا کے کلپس کو شیئر کیا جا رہا ہے وہیں حزب اختلاف کے مختلف رہنماؤں کی تقاریر کو بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے۔

حکومتی وزرا نے کیا مؤقف پیش کیا؟

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’ہمارا پاکستان کے ساتھ کوئی تنازع نہیں ہے، یہ تہذیب اور بربریت کا ٹکراؤ ہے، اگر کوئی ہماری خودمختاری کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے منھ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری بنیادی فطرت بدھ (امن پسندی) کی ہے جنگ کی نہیں۔ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ ایک خوشحال پاکستان ہمارے مفاد میں ہے۔ نریندر مودی حکومت کا مؤقف واضح ہے کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان کے ذہن میں ایک غلط فہمی تھی، ہم نے اسے آپریشن سندور کے ذریعے دور کیا، اگر کچھ رہ گیا تو اسے بھی دور کر دیں گے۔‘

اس موقع پر راج ناتھ سنگھ نے حزب اختلاف کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’کچھ اپوزیشن اراکین یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے کتنے طیاے گرے؟ میرے خیال میں اُن کا سوال ہمارے قومی جذبات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ انھوں نے یہ نہیں پوچھا کہ ہماری فوج نے دشمن کے کتنے طیارے گرائے؟ اگر انھیں پوچھنا ہے تو یہ پوچھنا چاہیے کہ انڈیا نے دہشتگردوں کے کتنے ٹھکانے تباہ کیے تو اس کا جواب ہو گا، ہاں۔ اگر آپ نے سوال پوچھنا ہی ہے تو یہ پوچھیں کہ آپریشن میں ہمارے کتنے فوجیوں کو نقصان پہنچا؟ اس کا جواب نہیں ہے۔ (یعنی) ہمارے کسی فوجی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کہنا مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہے کہ (پاکستان کے خلاف) فوجی کارروائی دباؤ کی وجہ سے روکی گئی۔ انڈیا نے اپنا آپریشن اُس وقت ہی روکا جب تک تمام عسکری مقاصد حاصل نہیں ہو گئے۔‘

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایوان میں کی گئی اپنی تقریر میں ایک مرتبہ پھر امریکی ثالثی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان 22 اپریل سے 17 جون کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘

انھوں نے ایک مرتبہ پھر یہ دعویٰ دہرایا کہ نو مئی کو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ پاکستان اگلے چند گھنٹوں میں بڑا حملہ کر سکتا ہے۔ ’وزیراعظم نے اپنے جواب میں واضح کیا کہ اگر ایسا کوئی حملہ ہوا تو ہماری طرف سے مناسب جواب دیا جائے گا۔‘

شنکر کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلگام حملے کے بعد ایک واضح، مضبوط، جرات مندانہ پیغام بھیجنا ضروری تھا، ہماری ریڈ لائن کو عبور کیا گیا اور ہمیں یہ واضح کرنا تھا کہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سفارتی اور خارجہ پالیسی کے لحاظ سے ہمارا کام دنیا کو پہلگام حملے کے بارے میں درست معلومات دینا تھا اور ہم نے پاکستان کی طرف سے سرحد پار دہشت گردی کی تاریخ کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ ہم نے پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح یہ (پہلگام) حملہ جموں و کشمیر کی معیشت کو نشانہ بنانے اور انڈیا کے لوگوں میں فرقہ وارانہ عداوت پھیلانے کے لیے کیا گیا۔‘

بعدازاں رُکن رکن پارلیمان پرینکا گاندھی سے جب صحافیوں نے اس حوالے سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’انھوں (ایس جے شنکر) نے صاف طور پر یہ نہیں کہا کہ جنگ بندی میں امریکہ شامل نہیں تھا۔ انھوں نے یہ کہا کہ مودی جی نے کئی دنوں تک ٹرمپ سے بات نہیں کی، لیکن یہ واضح طور پر نہیں کہا کہ اس میں امریکہ شامل نہیں تھا۔‘

کئی رکن پارلیمان نے پہلگام میں ہونے والے حملے سے جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ شیوسینا (یو بی ٹی) کے رکن پارلیمان اروند ساونت نے کہا: ’میں کچھ دنوں کے لیے وزیر تھا، میں الیکٹرک بسوں کے افتتاح کے موقع پر کشمیر گیا تھا۔ اس دن چپے چپے پر مسلح فوجی کھڑے تھے۔ مگراس دن کیا ہوا، کیا پہلگام میں مسلح فوجی نہیں تھے۔ ہمارے سیاح وہاں تھے اور پولیس بھی نہیں تھی؟ کس نے حکم دیا کہ وہاں کوئی فوجی نہیں ہو گا؟ تفتیش وہیں سے شروع ہونی چاہیے۔‘

’آپ بتاؤ کتنے جیٹ طیارے مار گرائے گئے‘

حزب اختلاف کی جانب سے کانگریس رہنما گورو گوگوئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ’ہم حکومت کے دشمن نہیں ہیں، ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آج بھی حکومت کے ساتھ ہیں، لیکن سچ سامنے آنا چاہیے۔۔۔ ہم سب نے متحد ہو کر وزیر اعظم مودی کی مکمل حمایت کی۔ پورے ملک نے اُن کا ساتھ دیا لیکن پھر اچانک 10 مئی کو اطلاع آئی کہ جنگ بندی ہو گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ پہلے21 اہداف منتخب کیے گئے پھر نو کیوں کر دیے گئے؟‘

’اگر پاکستان واقعی گھٹنے ٹیکنے کو تیار تھا تو آپ کیوں رُکے، آپ کیوں جُھکے۔ آپ نے کس کے سامنے ہتھیار ڈالے؟‘

ایوان بالا میں اجلاس کے کچھ گھنٹوں بعد استعفیٰ، انڈین نائب صدر کا اچانک اعلان جو چہ مگوئیوں کو جنم دے رہا ہے’پاکستان اور انڈیا کی جنگ کے دوران پانچ طیارے گرائے گئے‘: امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ اور کانگریس کا مودی سے سوالکارگل کی جنگ سے آپریشن سندور تک: انڈیا اور اسرائیل کا تعلق جو ابتدائی مخالفت کے بعد نظریاتی اور سٹریٹجک اتحاد میں بدل گیا’ورنہ میری گولی تو ہے ہی‘: پاکستان، انڈیا کشیدگی کے بیچ وزیراعظم مودی کے سخت بیانات کیا ظاہر کرتے ہیں؟

انھوں نے مزید کہا کہ ’امریکی صدر 26 بار کہہ چکے ہیں کہ ہم نے جنگ رکوائی۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ پانچ سے چھ جیٹ طیارے مار گرائے گئے ہیں۔ آپ بتاؤ کتنے جیٹ طیارے مار گرائے گئے؟‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’راج ناتھ سنگھ نے بہت سی معلومات دیں، لیکن وزیر دفاع ہونے کے ناطے یہ نہیں بتایا کہپہلگام میں دہشتگرد کیسے آئے؟ یہ نہیں بتایا کہ بیسرن میں، جہاں ہزاروں لوگ خوشیاں منانے جاتے ہیں، وہاں دہشتگردوں نے 26 افراد کو گولیاں سے کیسے چھلنی کر دیا۔ یہ بتانا چاہیے تھا۔‘

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان کلیان بنرجی نے اس موقع پر کہا کہ ’کیا آپ نے کبھی سُنا ہے کہ کوئی کھلاڑی کرکٹ میں 90 رنز پر کھیل رہا ہو اور کوئی یہ کہہ دے کہ ہمیں تو اننگز ختم کرنی چاہیے؟ یہ صرف مودی جی ہی کر سکتے ہیں اور کوئی نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’وزیر اعظم صاحب، آپ نے اپنے ایکس ہینڈل پر ایک بار بھی کیوں نہیں لکھا کہ ’نہیں، آپ (ٹرمپ) غلط ہیں۔ (امریکی) صدر صاحب، آپ نے جو کہا (جنگ بندی کروانے والی بات) وہ غلط ہے۔‘

’آپ ایسا کرنے کی ہمت نہ دکھا سکے۔ آپ امریکی صدر سے اتنے ڈرتے کیوں ہیں؟ آپ کا قد ان کے سامنے گھٹ کر پانچ فٹ کا اور سینہ 56 انچ سے 36 انچ کا کیوں ہو جاتا ہے؟ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔‘

سوشل میڈیا پر تبصرے

بہر حال ابھی آپریشن سندور پر پارلیمان میں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ آج یعنی منگل کے روز وزیر دفاع ایوان بالا (راجہ سبھا) میں اس سلسلے میں حکومت کا مؤقف ایوان کے سامنے رکھیں گے جبکہ دوپہر کو وزیر داخلہ امت شاہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں حکومت کا موقف پیش کریں گے۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وزیر اعظم کب پارلیمان سے خطاب کریں گے۔ انڈین میڈیا کے مطابق آیا آج شام کو یا پھر بدھ کو وہ پارلیمان سے خطاب کر سکتے ہیں۔

اس دوران بہت سے رکن پارلیمان نے ایشیا کپ میں پاکستان کے ساتھ میچ کھیلنے پر بھی سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ جب انڈیا نے پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر انگیجمنٹ بند کر رکھی ہے تو کرکٹ پر یہ کیوں لاگو نہیں کیا جا رہا ہے۔

ایکس پر پارلیمنٹ میں سوموار کو کی جانے والی تقاریر کے کلپس شیئر کرتے ہوئے سوشل ایکٹوسٹ بھاویکا کپورنے لکھا کہ ’کیا پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر حکومت پر تنقید کرنے والی تقریر کرنا کافی ہے؟ پارلیمنٹ میں اس قسم کی شعلہ بیان تقریروں سے مودی سرکار کو کیا فرق پڑتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ کیا ہمیں سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے کوئی خاص مبارک تاریخ اور وقت تلاش کرنے کی ضرورت ہے؟‘

صارف ارجن چڈا نے لکھا کہ حکومتی وضاحتیں سوالات کا جواب دینے کے بجائے معاملہ مزید الجھا رہی ہیں۔ ’آخر آپ اپوزیشن کے سوالوں کا واضح جواب دینے سے کیوں کترا رہے ہیں۔‘

کانگریس حامی ایک صارف رویندر کپور کے مطابق ’ڈونلڈ ٹرمپ کیوں دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھوں نے بھارت کو جنگ بندی کے لیے مجبور کیا؟ گورو گوگوئی (ڈپٹی ایل او پی ایل ایس) نے پارلیمنٹ میں مودی حکومت کو تباہ کر دیا۔ جب پاکستان گھٹنوں کے بل رحم کی بھیک مانگ رہا تھا تو حکومت نے جنگ بند کر کے ہتھیار کیوں ڈالے؟‘

صحافی آدتیہ راج کول نے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کی تقریر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’اویسی پارلیمنٹ کے اندر پورے انڈیا کے لیے بولتے ہیں۔ بزدلانہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ کوئی کرکٹ میچ قابل قبول نہیں۔ آپ کا ضمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایسے کرکٹ میچ کی اجازت کیسے دیتا ہے؟‘

’ورنہ میری گولی تو ہے ہی‘: پاکستان، انڈیا کشیدگی کے بیچ وزیراعظم مودی کے سخت بیانات کیا ظاہر کرتے ہیں؟’گھر گھر سندور‘ مہم کی تردید کے باوجود بی جے پی پر سیاسی جماعتوں کی تنقید: ’آپ سندور کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں‘دہشتگردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں ہو سکتے، پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا: نریندر مودیکارگل کی جنگ سے آپریشن سندور تک: انڈیا اور اسرائیل کا تعلق جو ابتدائی مخالفت کے بعد نظریاتی اور سٹریٹجک اتحاد میں بدل گیا’پاکستان اور انڈیا کی جنگ کے دوران پانچ طیارے گرائے گئے‘: امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ اور کانگریس کا مودی سے سوالایوان بالا میں اجلاس کے کچھ گھنٹوں بعد استعفیٰ، انڈین نائب صدر کا اچانک اعلان جو چہ مگوئیوں کو جنم دے رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More