دنیا میں ایک ایسی نئی سُپر ماڈل کے چرچے ہیں جو دِکھنے میں پُرکشش اور سٹائلش تو ہے، لیکن حقیقت میں اُس کا وجود نہیں ہے۔
معروف فیشن میگزین ’ووگ‘ کے اگست کے پرنٹ ایڈیشن میں شائع ہونے والے ایک اشتہار میں ایک سنہری بالوں والی خوبصورت ماڈل کو ایک برانڈ کے گرمیوں کے کلیکشن کے لیے میکسی اور پلے سوٹ میں دکھایا گیا ہے۔
اشتہار کے ایک کونے میں تحریر ہے کہ یہ ماڈل آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی اے آئی کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔
’ووگ‘ میگزین کا کہنا ہے کہ اے آئی ماڈل کا اگست کے ایڈیشن میں شامل کیا جانا ادارتی فیصلہ نہیں تھا، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ اے آئی سے بنائی گئی تصویر کو اس میگزین میں شامل کیا گیا ہے۔
یہ اشتہار تنازع کا باعث بنا ہوا ہے اور اس سے یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اِس کا اثر ان حقیقی ماڈلز پر کیا ہو گا جنھوں نے صنعت میں زیادہ تنوع کے لیے برسوں محنت کی ہے، اور اُن صارفین، خاص طور پر نوجوانوں، پر کیا اثر پڑے گا جو پہلے ہی غیر حقیقی خوبصورتی کے معیارات سے نبرد آزما ہیں۔
’گِیس‘ کمپنی کے اس متنازع اشتہار کو تخلیق کرنے کا سہرا ’سیرافین ویلورا‘ نامی کمپنی کے سر جاتا ہے۔
ویلنٹینا گونزالز اور اندریا پیٹریسکو اس کمپنی کی بانیوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں انسٹاگرام پر گیس کے شریک بانی پال مارچیانو کی جانب سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ برانڈ کی گرمیوں کے ملبوسات کی مہم کے لیے ایک اے آئی ماڈل تیار کریں۔
گونزالز نے بتایا: ’ہم نے ان کے لیے دس مجوزہ ماڈلز تیار کیے، جن میں سے انھوں نے ایک بھورے بالوں والی اور ایک سنہری بالوں والی خواتین کے ماڈلز کو منتخب کیا، جن پر ہم نے مزید کام کیا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے تصویر تخلیق کرنا بہت پیچیدہ معاملہ ہے حالانکہ عام طور پر لوگ اسے آسان کام سمجھتے ہیں۔
اس کمپنی میں پانچ ملازمین ہیں جو مصنوعی ذہانت سے ماڈلز تیار کرتے ہیں، اور ایک ماڈل کی تخلیق میں ابتدائی تصور سے حتمی شکل تک ایک مہینہ لگ سکتا ہے۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ وہ ’گِیس‘ جیسے کلائنٹس سے اس کام کے عوض ہزاروں ڈالرز کی فیس وصول کرتے ہیں۔
’مایوسی کا باعث‘
ماڈل فیلسٹی ہیورڈ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے فیشن انڈسٹری میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فیشن کمپیئن میں اے آئی ماڈلز کا استعمال ’سست روی کا مظاہرہ ہے اور یہ سستا بھی ہے۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’یا تو گِیس کمپنی یہ سب صرف شہرت کے لیے کر رہی ہے، یا پھر وہ تشہیر پر کم خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا انھیں کوئی خیال نہیں ہے۔‘
وہ ووگ میگزین کی جانب سے اس اشتہار کو شائع کرنے کے فیصلے کو ’انتہائی مایوس کن اور کافی حد تک خوفناک‘ قرار دیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ فیشن انڈسٹری کی برسوں کی محنت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
فیشن انڈسٹری سنہ 2010 کی دہائی میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت کی طرف پیش رفت کر رہی تھی۔ اس دوران ویلینٹینا سمپایو کُھلے عام پہلی ٹرانس ماڈل بنیں جنھوں نے وکٹوریاز سیکرٹ کے لیے ریمپ پر واک کی، حلیمہ عدن پہلی باحجاب ماڈل بنیں جو عالمی تشہری مہمات میں شامل ہوئیں، اور سیویج ایکس فینٹی جیسے برانڈز نے رن وے (سٹیج) پر پلس سائز ماڈلز کو جگہ دی۔
Getty Imagesفیلیسیٹی ہیورڈ 2011 سے فیشن انڈسٹری سے منسلک ہیں
لیکن ہیورڈ کا ماننا ہے کہ حالیہ برسوں میں انڈسٹری پیچھے کی طرف جا رہی ہے کیونکہ ’ایسے ماڈلز کو اب کام نہیں مل رہا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اے آئی ماڈلز کا استعمال ’زخم پر نمک چھڑکنے جیسا ہے، اور اس کا سب سے زیادہ نقصان پلس سائز ماڈلز کو ہو گا۔‘
گونزالز اور پیٹریسکو کا کہنا ہے کہ وہ خوبصورتی کے محدود معیار کو فروغ نہیں دیتیں۔
پیٹریسکو نے کہا کہ ’ہم غیر حقیقی شکلیں نہیں بناتے۔ گِیس کے لیے ہماری اے آئی ماڈل حقیقت کے کافی قریب ہے۔ آخرکار، تمام اشتہارات کا مقصد ہی کامل نظر آنا ہوتا ہے اور ان میں عام طور پر سپر ماڈلز ہوتی ہیں، تو ہمارا کام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔‘
تاہم یہ دونوں تسلیم کرتی ہیں کہ اُن کے انسٹاگرام پیج پر مصنوعی ذہانت سے تیارکردہ تصاویر میں تنوع کی کمی ہے اور وہ غیر حقیقی خوبصورتی کو فروغ دیتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انھوں نے زیادہ بہتر تصاویر بنانے کی کوشش کیں، لیکن صارفین ان پوسٹس پر زیادہ ردِعمل نہیں دیتے۔
منفی اثرات کے خدشات
گونزالز کہتی ہیں کہ ’ہم نے مختلف رنگت والی خواتین کی اے آئی تصاویر پوسٹ کیں، لیکن لوگ ان پر ردعمل نہیں دیتے، ہمیں نہ تو لائکس ملتے ہیں اور نہ ہی کوئی انھیں پسند کرتا ہے۔‘
’آخرکار، ہم کاروباری ہیں اور انسٹاگرام پر وہ تصاویر پوسٹ کرتے ہیں جو موضوع گفتگو بنیں اور ہمیں گاہک لا کر دیں۔‘
اس کمپنی نے اب تک پلس سائز خواتین کی اے آئی ماڈلز بنانے کا کوئی تجربہ نہیں کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ’ٹیکنالوجی ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی ہے۔‘
بیوٹی پروڈکٹ ڈو کی سنہ 2024 کی ایک اشتہاری مہم کے دوران آے آئی میں موجود تعصب کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس اشتہار میں دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کی تصویر بنانے کو کہا گیا، جس کے نتیجے میں تقریباً ایک جیسی تصاویر سامنے آئیں۔ ان میں عنفوان شباب پر، دبلی پتلی، گوری رنگت، سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والی لڑکیاں تھیں جو گِیس کی اے آئی ماڈلز سے مشابہت رکھتی تھیں۔
ہیورڈ کو خدشہ ہے کہ ان غیر حقیقی تصاویر کو دیکھ کر لوگوں کی ذہنی صحت اور اُن کی اپنی خود کی جسمانی شبیہ پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟کیا اب ہمارا سمارٹ فون واقعی اتنا مضبوط ہے کہ اس پر سکرین پروٹیکٹر یا کیس لگانے کی ضرورت نہیں: 30 دنوں پر محیط ایک دلچسپ تجربہفرشی شلوار: مغلیہ دور کا شاہانہ لباس جو 2025 میں فیشن ٹرینڈ بن گیالاطینی امریکہ اور دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے والی چینی فیشن کمپنی شین کو امریکہ میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟
غیر حقیقی خوبصورتی کے معیار اور ان کے مضر اثرات کے بارے میں تشویش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن روایتی ایئر برشنگ کے برعکس، جو کم از کم کسی حقیقی انسان پر مبنی ہوتی ہے، اے آئی ماڈلز کو مکمل طور پر ڈیجیٹلی اس طرح تخلیق کیا جاتا ہے کہ وہ کامل اور بے نقص لگیں اور انسانی خامیوں اور تضادات سے پاک ہوں۔
اگرچہ اشلی گراہم، جمیلا جمیل اور بیلا تھورن جیسی کچھ مشہور شخصیات نے تصویری ایڈیٹنگ کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اپنی تصاویر کو فوٹوشاپ نہ کرنے پر اصرار کیا ہے، لیکن اے آئی کا استعمال ان مباحثوں کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیتا ہے۔
ووگ کے مصنوعی ذہانت سے تیار کیے گئے اشتہار کو استعمال کرنے کےفیصلے نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔ ایک صارف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’واہ! جیسے خوبصورتی کے معیار پہلے ہی غیر حقیقی نہیں تھے کہ اب اے آئی نے انھیں مکمل طور پر ناقابلِ حصول بنا دیا ہے۔ اب تو ماڈلز بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔‘
خیراتی ادارے ’بیٹ‘ کی سی ای او وینیسا لانگلے نے بی بی سی سے گفتگو میں اس اشتہار کو ’تشویشناک‘ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر لوگ غیر حقیقی جسموں کی تصاویر کے سامنے بار بار آئیں، تو یہ اُن کی اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں خیالات پر اثر ڈال سکتا ہے۔‘
’انتہائی پریشان کن‘
ان کا کہنا ہے کہ شفافیت کی کمی مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ برطانیہ میں قانونی طور پر یہ لازم نہیں کہ اے آئی سے تخلیق شدہ مواد کو واضح طور پر لیبل کیا جائے۔
اگرچہ گِیس نے اپنے اشتہار کو اے آئی سے تخلیق شدہ قرار دیا ہے، لیکن وضاحت چھوٹے حروف میں اور غیر نمایاں انداز میں تحریر کی گئی ہے۔ قارئین اسے نظرانداز کر سکتے ہیں اور بادی النظر میں تصویر مکمل طور پر حقیقی سمجھی جا سکتی ہے۔
سینیڈ بوویل خود ایک ماڈل رہی ہیں اور اب وہ ٹیک انٹرپرینیور ہیں۔ انھوں نے پانچ سال قبل ووگ کے لیے ایک مضمون لکھا تھا جس میں ماڈلنگ کو اے ائی سے تبدیل کیے جانے کے خطرات بیان کیے گئے تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اے آئی مواد کو واضح طور پر لیبل نہ کرنا ’انتہائی پریشان کن‘ ہے کیونکہ یہ لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’خوبصورتی کے معیار سے پہلے ہی نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں صرف ایک فلٹر والے چہرے جیسی نظر آنے کے لیے پلاسٹک سرجری کروا رہی ہیں اور اب ہمارے سامنے مکمل مصنوعی لوگ آ رہے ہیں۔‘
یہ سوال بھی اہم ہے کہ فیشن انڈسٹری میں کام کرنے والے افراد پر اس ٹیکنالوجی کا کیا اثر پڑے گا؟
سارا زِف ایک سابق ماڈل اور ’ماڈل الائنس‘ نامی تنظیم کی بانی ہیں اور وہ فیشن انڈسٹری میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ گِیس کی اے آئی مہم ’اختراع سے زیادہ مایوسی اور لاگت کم کرنے کی کوشش لگتی ہے۔‘
تاہم مجموعی طور پر، وہ سمجھتی ہیں کہ فیشن انڈسٹری میں اے آئی بذاتِ خود استحصال پر مبنی نہیں، لیکن یہ اکثر ان لوگوں کے حقوق کی قیمت پر آتا ہے جو اسے حقیقت کا رنگ دیتے ہیں، کیونکہ ایک فوٹو شوٹ میں ماڈل اور فوٹوگرافر کے علاوہ بھی بہت سے افراد شامل ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اے آئی انڈسٹری پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے، لیکن مزدوروں کے لیے مؤثر تحفظات ہونا ضروری ہیں۔‘
کمی کو پوری کرنے والا، نہ کہ متبادل
سیرافین ویلورا کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اے آئی لوگوں کی نوکریاں چھین رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جدید ٹیکنالوجی ’اضافی سہولت ہے، ماڈلز کا متبادل نہیں۔‘
پیٹریسکو وضاحت کرتی ہیں کہ ’ہم کمپنیوں کو یہ انتخاب دے رہے ہیں کہ وہ اپنے پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کس انداز میں کریں۔‘
یہ دونوں مزید کہتی ہیں کہ اُن کی کمپنی نے ملازمتیں پیدا کی ہیں، اور اے آئی ماڈلز بنانے کے عمل میں ایک حقیقی ماڈل اور فوٹوگرافر کی مدد درکار ہوتی ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ لباس اصل میں انسان پر کیسا دکھتا ہے۔
تاہم، ان کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ اُن کے ساتھ کام کرنے کے قواعد میں سے ایک لاگت میں کم کرنا ہے کیونکہ یہ مہنگے فوٹو شوٹ سیٹ اپ، میک اپ آرٹسٹ، جگہ کا کرایہ، سٹیج ڈیزائن، فوٹوگرافر، سفر کے اخراجات اور ماڈلز کی خدمات لینے کی ضرورت کو ختم کر دیتا ہے۔
ووگ کو اپنے پرنٹ ایڈیشن میں اس اشتہار کو شامل کرنے پر تنقید کا سامنا ہے، ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ اس فیشن میگزین نے اپنی ’ساکھ کھو دی ہے۔‘
بوویل کہتی ہیں کہ اس میگزین کو ’فیشن انڈسٹری کی سپریم کورٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس لیے جب وہ اے آئی اشتہار کو جگہ دیتے ہیں تو یہ تاثر جاتا ہے کہ وہ اسے کسی حد تک قابلِ قبول قرار دے رہے ہیں۔‘
بی بی سی نے ووگ اور گیس سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا۔ ووگ کا کہنا تھا کہ یہ ایک اشتہار ہے، ادارتی فیصلہ نہیں، اور مزید تبصرے سے انکار کر دیا۔
تو ماڈلنگ انڈسٹری کا مستقبل کیا ہے؟
گونزالز اور پیٹریسکو کا ماننا ہے کہ جیسے جیسے ان کی ٹیکنالوجی بہتر ہوتی جائے گی، برانڈز جو کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ان کی مانگ میں اضافہ ہو گا۔
بوویل کا خیال ہے کہ مستقبل میں اے آئی ماڈلز کی تعداد بڑھے گی۔
وہ فیشن انڈسٹری میں اے آئی کی ترقی میں کچھ مثبت پہلو بھی دیکھتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ممکن ہے مستقبل میں ہر شخص ’خود کو فیشن ماڈل کے طور پر دیکھ سکے‘ کیونکہ ہم اپنے ذاتی اے آئی اوتار بنا سکیں گے تاکہ جانچ سکیں کہ کوئی لباس ہم پر کیسا لگتا ہے۔
تاہم وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ شاید ہم اس مقام پر بھی پہنچ جائیں جہاں ’معاشرہ اے آئی ماڈلز سے اکتائے، اور ان میں دلچسپی لینا چھوڑ دے، کیونکہ وہ انتہائی غیر حقیقی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ اصل نہیں ہیں۔‘
مصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟انسان نما شعور، ’سپر ہیومن‘ مشینیں اور روبوٹ: مصنوعی ذہانت سے جڑا خوف ’فکشن‘ یا حقیقت؟مصنوعی ذہانت کی دلچسپ لیکن ’ڈرا دینے والی‘ شکل ’جنریٹیو اے آئی‘ کیا ہے؟شین کے سستے کپڑوں کے پیچھے چھپی چینی فیکٹریوں کی کہانی، جہاں مشینیں مزدوروں کے رات دن کا فیصلہ کرتی ہیں’ہیلو ِکٹی‘: ایک سادہ ڈرائنگ جس سے جاپانی کمپنی نے 84 ارب ڈالر کمائےفرشی شلوار: مغلیہ دور کا شاہانہ لباس جو 2025 میں فیشن ٹرینڈ بن گیا