ملتان میں سیلاب: کیا شگاف نہ ڈالنے سے زیادہ لوگ ڈوبے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 12, 2025

BBC’اس مرتبہ انتظامیہ نے شگاف نہیں ڈالا اور ہماری تباہی ہو گئی‘

صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کے رہائشی محمد اختر ماضی میں متعدد بار سیلابی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں مگر اُن کے مطابق اس مرتبہ صورتحال کچھ مختلف ہے کیونکہ ’ناصرف پانی زیادہ بلکہ اس کی سطح بھی مسلسل بلند ہو رہی ہے۔‘

جب بی بی سی کی محمد اختر سے ملاقات ہوئی تو اُس وقت وہ اپنے گھر کے سامان کو محفوظ مقام تک منتقل کرنے کے لیے کشتی کی تلاش میں تھے۔

اختر کا گھر ملتان شہر کے مضافات میں واقع ایک حفاظتی بند کے ساتھ موجود چھوٹی سی بستی میں واقع ہے۔ بظاہر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ’پانی مسلسل بڑھتا کیسے جا رہا ہے، پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔‘ انھیں لگتا ہے یہ سب بدانتظامی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

’آج سے دس سال پہلے جب چناب میں سیلاب آیا تھا تو اُس وقت پانی بہت کم تھا۔ اُس وقت حکومت نے شیر شاہ کے مقام پر شگاف ڈال دیا تھا اور سارا پانی نکل گیا تھا۔ اس مرتبہ انھوں (انتظامیہ) نے شگاف نہیں ڈالا اور ہماری تباہی ہو گئی۔‘

پانی نے چاروں اطراف سے اختر کے گھر کو گھیر رکھا ہے۔ ابتدا میں انھوں نے صرف زیادہ قیتمی سامان نکال کر باہر حفاظتی بند پر لا کر رکھ دیا تھا، لیکن اب ان کے کمروں کے اندر پڑا سامان بھی خطرے میں ہے۔ اختر کو ڈر ہے کہ پانی کے مسلسل بڑھنے کی وجہ سے کہیں اُن کا گھر گر نہ جائے۔

ایک مقامی ملاح اپنی کشتی سے اُن کی اور ارد گرد کی بستیوں سے لوگوں کی سامان نکال کر بند تک لانے میں مدد کر رہے ہیں۔ ملاح اور کشتی کی مانگ زیادہ ہے مگر محمد اختر زیادہ انتظار نہیں کر سکتے۔

محمد اختر کی بستی کے چند نوجوانوں نے مل کر اپنی مدد آپ کے تحت ایک ٹریکٹر کے ٹائر کی ٹیوب حاصل کی ہے جو سائز میں کافی بڑی ہے اور پانی پر تیر سکتی ہے۔ اس پر انھوں نے ایک الٹی چارپائی باندھ کر اسے کشتی کی شکل دی ہے جس پر وہ محمد اختر کے گھر سے سامان نکالنے گئے ہیں۔

محمد اختر خود اپنے باقی سامان کی حفاظت کے لیے بند پر بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ بروقت شیر شاہ کے مقام پر شگاف ڈال دیتے تو دریا کو راستہ مل جاتا اور ہمارا کم نقصان ہوتا۔‘

BBCمحمد اختر: ’اگر شگاف ڈال دیتے تو ہمارا پچیس فیصد نقصان ہوتا۔ اب ہمارا سو فیصد نقصان ہوا ہے‘

ان کا الزام ہے کہ حکومت کی طرف سے شگاف ڈالنے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے چناب میں سیلاب کے پانی نے ان کا زیادہ نقصان کیا ہے۔ ’اگر شگاف ڈال دیتے تو ہمارا پچیس فیصد نقصان ہوتا۔ اب ہمارا سو فیصد نقصان ہوا ہے، پانی نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔‘

محمد اختر کہتے ہیں کہ جب دریا میں سیلاب آئے تو اسے راستہ دے دینا چاہیے تاکہ اس کا پانی رک کر ڈیم کی شکل اختیار نہ کرے اور قریبی آبادیوں میں نہ پھیل سکے۔

تاہم وہ جس مقام پر شگاف ڈالنے کی تجویز دے رہے ہیں وہ کہاں واقع ہے اور شگاف ڈال کر دریا کے پانی کو رستہ دینے کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا واقعی اس سے ان کا اور ارد گرد کی بستیوں میں گھر محفوظ رہتے؟

محمد اختر کے بعد سیلاب سے متاثر ہونے والے ملتان کے علاقوں سے دیگر کئی لوگوں نے بی بی سی کو اسی نوعیت کی شکایات کی ہیں۔ ان سے ملاقات کے بعد ہم نے ان سوالوں کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔

’ان لوگوں تک پانی آنا ہی آنا تھا‘BBC

دریاوں، نہروں اور ہر قسم کی آبی گزرگاہوں کے انتظام کی ذمہ داری پنجاب کے محکمہ آبپاشی کی ہے۔ سیلابوں کی صورت میں بھی اُن ہی کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات پر انحصار کرتے ہوئے آفات سے نمٹنے والے دیگر حکومتی ادارے انسانی جانوں اور املاک کو بچانے کے اقدامات کرتے ہیں۔

محکمہ آبپاشی پنجاب نے دریاؤں کے سیلابوں سے شہری آبادیوں کو بچانے کے لیے مختلف مقامات پر انتہائی مضبوط اور اونچے بند تعمیر کر رکھے ہیں جو بعض مقامات پر کئی سو کلومیٹر تک طویل ہیں۔ ملتان شہر کے گرد بھی ایسا ایک بند ہے جسے ’اکبر بند‘ کہا جاتا ہے۔

دریائے چناب ملتان شہر کے پاس سے گزرتا ہے اور ’اکبر بند‘ شہر اور دریائے چناب کے درمیان اُس مقام پر بنایا گیا ہے جہاں تک محکمہ آبپاشی کے مطابق چناب میں سیلاب آنے کی صورت میں پانی پہنچ سکتا ہے۔ شہر اس بند سے چند کلومیٹر دور ہے۔

یوں دریائے چناب کے اور اکبر بند کے درمیان ایک خطہ بن جاتا ہے۔ محکمہ آبپاشی اسے ’فلڈ پلین‘ یا سیلاب کا علاقہ کہتا اور تصور کرتا ہے۔ فلڈ پلین عام دنوں میں خشک رہتا ہے لیکن سیلاب کے دنوں میں دریا کا پانی اس علاقے میں آ جاتا ہے۔

ذیشان علی ہاشمی محکمہ آبپاشی پنجاب کے سپرنٹنڈنگ انجینیئر ہیں اور سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ملتان کے ہیڈ محمد والا پل کے قریب ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں بتایا کہ محمد اختر اور اُن جیسے دیگر لاکھوں لوگ بنیادی طور پر ’فلڈ پلین‘ کے اندر آباد ہیں۔ ’ان لوگوں تک پانی آنا ہی آنا تھا۔ جب بھی سیلاب آتا ہے تو یہ فلڈ پلین اپنے اندر پانی لیتے ہی لیتے ہیں۔‘

ذیشان علی اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ دریا پر شگاف ڈالنے میں تاخیر یا شگاف نہ ڈالنے سے ان علاقوں میں پانی زیادہ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ شگاف ڈالنے کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر ہوتا ہے اور یہ فیصلہ محض چند لوگوں کے مفاد کو نہیں بلکہ بڑی شہری آبادی کے مفادات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔

شگاف کس بنیاد پر اور کہاں لگایا جاتا ہے؟BBC

دریائے چناب جب ملتان شہر کے قریب پہنچتا ہے تو اسے دو بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ پہلی ہیڈ محمد والا بریج ہے۔ یہ پل تقریباً ایک کلومیٹر طویل ہے جبکہ اس مقام پر دریا کا پاٹ تین سے چار کلومیٹر چوڑا ہے۔

اس سے چند کلومیٹر آگے جا کر دوسری رکاوٹ شیر شاہ کے مقام پر واقع وہ دو پُل ہیں جن میں ایک ٹرین کے لیے بنا لوہے کا پُل ہے۔

سیلاب کے دنوں میں جب دریا میں پانی بہت زیادہ ہوتا ہے تو وہ دریا کے پورے پاٹ کے اندر بہہ رہا ہوتا ہے۔ ان پُلوں کے پاس پہنچ کر جو پانی پُل کے نیچے سے نہ گزر پائے وہ پلوں کے اوپر سے گزرنے والی سڑک کے ساتھ لگ کر رُک جاتا ہے۔ یعنی وہ سڑک بنیادی طور پر بند کا کام کرتی ہے۔

یوں ان مقامات پر دریا کا پانی اطراف میں پھیلتا ہوا فلڈ پلین کے اندر اکبر بند تک چلا جاتا ہے۔ اگر پیچھے سے زیادہ پانی آتا رہے تو فلڈ پلین میں بھی اس کی سطح بڑھتی رہتی ہے جس سے حفاظتی بند پر دباؤ بڑھتا ہے اور پلوں کے نیچے بھی سطح بلند ہوتی ہے جس سے مواصلات کے ان اثاثوں پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔

سپریٹنڈنٹ انجینیئر ذیشان علی نے بتایا کہ محکمہ آبپاشی نے فلیڈ پلینز کے اندر بھی مختلف مقامات پر پانی کی سطح ناپنے کے لیے گیجز یا پیمانے نصب کر رکھے ہیں جن کا مسلسل مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اُن ہی کی مدد سے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ شگاف ڈالنا ہے یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک کمیٹی ہوتی ہے جس میں ضلعی انتظامیہ، مواصلات، آبپاشی، واپڈا، فوج اور دیگر حکومتی اداروں کے عہدیدار شامل ہوتے ہیں۔ یہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ شگاف ڈالنا ضروری ہے یا نہیں، کہاں شگاف ڈالنا چاہیے اور کس وقت۔‘

’اوپر کوبرا تھا اور نیچے 10 فٹ پانی‘: سیلاب سے بچاؤ کے لیے 24 گھنٹے درخت پر گزارنے والے شخص کی کہانیلاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیلاب: کیا یہ گھر اب رہنے کے قابل رہیں گے؟ایک ٹیوب کے ذریعے حافظ آباد کے درجنوں لوگوں کو بچانے والے ’ملنگ‘: ’میرے لیے ایک ہزار روپے انعام کروڑوں سے بہتر ہے‘سیلاب سے پہلے اور بعد کی صورتحال: پنجاب کے دریاؤں نے کیسے مختلف شہروں میں تباہی مچائی؟

ذیشان علی کے مطابق اس نوعیت کا شگاف پُل سے کچھ میٹر کے فاصلے ہر ایک مقام پر لگایا جاتا ہے۔ اس مقام کا تعین پہلے ہی سے اس وقت کر لیا جاتا ہے جب پُل کا ڈیزائن تیار کیا جاتا ہے۔

’ایک مرتبہ جب کمیٹی شگاف لگانے کا فیصلہ کر لے تو پھر فوج کی مدد سے اس پہلے سے متعین حصے پر سڑک میں سوراخ کر کے بارودی مواد بھرا جاتا ہے جسے بعدازاں دھماکے سے اڑا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد محکمہ آبپاشی مشینری کی مدد سے اس مقام پر شگاف کو مزید چوڑا کرتا ہے۔‘

اس طرح دریا کے پانی کو پل کے علاوہ بھی نکلنے کا الگ راستہ مل جاتا ہے۔

یہ پانی بھی فلڈ پلین سے باہر نہیں جاتا۔ یہ دریا سے نکل کر دریا ہی میں چلا جاتا ہے لیکن اس سے بند اور پل پر پانی کا دباؤ کم ہو جاتا ہے۔

ذیشان علی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ بند فلڈ پلین میں ایک ایسی جگہ بنایا جاتا ہے کہ شہر میں سیلاب کا پانی داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ ان کی سب سے بڑی ترجیح بند کو محفوظ رکھنا ہے تاکہ اس کے دوسری طرف آباد شہر کے لاکھوں لوگ محفوظ رہیں۔

ہیڈ محمد والا بریج اور شیر شاہ بریج پر پہلے سے متعین کردہ مقامات پر شگاف لگانے کے پوائنٹس موجود ہیں تاہم اس مرتبہ انتظامیہ کی طرف سے وہاں شگاف لگانے کا فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ اس وقت چناب میں ان مقامات سے دوسرا بڑا سیلاب کا ریلا گزر رہا ہے جو آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔

’لوگوں کی تمام تر زراعت فلڈ پلین کے علاقے میں ہے‘BBC

ہیڈ محمد والا بریج سے اپ سٹریم یعنی اوپر کے علاقے میں ملک محمد عمر منگانہ ایک مقامی علاقے نواب پور کے یونین کونسل کے چیئرمین ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بھی اس بات کو دہرایا کہ انتطامیہ کی طرف سے اگر ہیڈ محمد والا پر شگاف لگا دیا جاتا تو ان کی یونین کونسل کے علاقے کم ڈوبتے۔

ملک محمد عمر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جن لوگوں کے گھروں میں پانی نے تباہی مچاہی وہ فلڈ پلین کے اندر واقع ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اسی علاقے میں ان افراد کی تمام تر زمینداری ہے۔

’بند کے دوسری جانب تو اب صرف نواب پور کی شہری آبادی ہے جہاں لوگ رہتے ہیں۔ لوگوں کی تمام تر زراعت بند کی دوسری طرف چلی گئی ہے جو فلڈ پلین کا علاقہ ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں نے وہیں اپنے ڈیرے اور گھر بنا لیے ہیں۔‘

تاہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا وہ جانتے نہیں تھے کہ یہ دریا کا علاقہ ہے۔ ملک محمد عمر کہتے ہیں کہ لوگوں کو معلوم تھا لیکن یہ لوگوں کی اپنی زمینیں ہیں جو ان کی ملکیت ہیں۔ اس لیے وہ اس پر زمینداری کرتے ہیں اور قانونی طور پر ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

اس علاقے میں ان کے آم کے باغات ہیں اور ایک بڑے پیمانے پر فصلیں کاشت ہوئی ہیں۔

’لوگوں نے یہ سمجھا کہ اب انڈیا نے دریاؤں پر بند بنا لیے ہیں اس لیے اب کبھی بھی اس طرف اتنا زیادہ پانی نہیں آئے گا۔ اس لیے انھوں نے اپنے گھر بھی یہاں بنا لیے اور ان کے ڈیرے بھی یہیں تھے جہاں ان کے مویشی موجود ہوتے ہیں۔‘

تاہم ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ لوگ فلڈ پلین کے اندر آباد تھے تو ہیڈ محمد والا کی سڑک جو بند کا کام کرتی ہے وہ بھی اسی فلڈ پلین کے اندر واقع ہے۔ اگر اس بند میں شگاف ڈال دیا جاتا پانی پیچھے کی طرف جمع نہ ہوتا اور لوگوں کے گھر کم ڈوبتے۔

کیا انتظامیہ نے اثاثے بچانے کے لیے شگاف نہیں ڈالا؟BBCذیشان علی: ’شگاف ڈالنے کا فیصلہ تکنیکی کمیٹی کرتی ہے جس میں چند افراد کے مفاد کے بجائے بڑے شہری علاقے کے مفاد کو دیکھا جاتا ہے‘

فلڈ پلین کے اندر آباد سیلاب سے متاثر ہونے والے کئی افراد کا یہ خیال ہے کہ بظاہر انتظامیہ نے اثاثوں کو بچانے کے لیے ان شاہراہوں پر شگاف نہیں ڈالے اور اس وجہ سے ان کے گھر زیادہ ڈوب گئے۔

محکمہ آبپاشی کے ذیشان علی ان تاثرات کو مسترد کرتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے۔

’شگاف لگانے کے لیے بنیادی طور پر دو چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ حفاظتی بند کو کوئی خطرہ نہ ہو تاکہ شہر کی آبادی محفوظ رہے۔ اور دوسری طرف یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے اثاثہ جات بھی محفوظ رہیں۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے وضاحت کی کہ اثاثہ جات کو بچانا کیوں ضروری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ابتدا میں جب سیلابی پانی وسطی پنجاب میں موجود تھا اور زیادہ اونچے درجے کا تھا تو ہیڈ قادر آباد کے مقامپر شگاف لگایا گیا تھا۔

یہ شگاف اس لیے لگایا گیا تھا کہ ہیڈ قادر آباد جہاں سے آبپاشی کے لیے نہریں نکلتی ہیں اس کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ ’اگر قادر آباد ہیڈ ٹوٹ جاتا تو سیلاب اُترنے کے بعد وہ پورا علاقہ خشک سالی کا شکار ہو جاتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب کمیٹی یہ سمجھتی ہے کہ لوگوں کو جانی اور مالی خطرہ ہے یا اثاثہ خطرے میں ہیں اور فیصلہ کرتی ہے کہ شگاف لگانا چاہیے تو اس کے بعد فوج کی مدد سے شگاف لگا دیا جاتا ہے۔

ذیشان علی کے مطابق محض چند افراد کے مفادات کی خاطر لاکھوں افراد کے مفادات کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے پانی نے جتنے بھی افراد کو متاثر یا بے گھر کیا وہ فلڈ پلین کے اندر آباد تھے جہاں انھیں نہیں ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے بتایا کہ محکمہ آبپاشی نے ملتان شہر کو بچانے والے اکبر بند کے اندر دھاتی پلیٹیں لگا کر اس کو مزید محفوظ بنا رکھا ہے جو ہیڈ محمد والا سے ساٹھ کلو میٹر اوپر اور سو کلو میٹر نیچے تک پھیلا ہوا ہے۔

ذیشان علی نے دعویٰ کیا کہ ان کے محکمے کی طرف سے مسلسل نگرانی اور اقدامات کی وجہ سے ’پانی کا ایک قطرہ بھی بند کی دوسری طرف شہری آبادیوں کی طرف نہیں گیا۔‘

’اوپر کوبرا تھا اور نیچے 10 فٹ پانی‘: سیلاب سے بچاؤ کے لیے 24 گھنٹے درخت پر گزارنے والے شخص کی کہانی’ہم مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے اپنے اجڑنے کا تماشہ دیکھتے رہے‘: گجرات شہر پانی میں کیسے ڈوبا؟پاکستان میں گندم، آٹے اور چاول کی قیمتیں اچانک کیوں بڑھیں اور کیا مستقبل قریب میں اِن کی قلت کا خدشہ ہے؟سیلاب میں بہنے والے مویشیوں کے پریشان مالکان: ’حکومت آئے گی، فوٹو بنائے گی اور پھر شاید کچھ ہو جائے‘’واش رومز میں پانی نہیں، جوان بچیوں کو کہاں سلاؤں‘: ملتان میں حکومتی کیمپس کے اندر اور باہر سیلاب متاثرین کس حال میں ہیں؟پنجاب میں سیلاب: ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت اور گاڑی میں تین بچوں کا جنمسیلاب متاثرین کو بھوکے مویشیوں کی فکر: ’ہمارے لیے کھانا نہ لائیں، جانوروں کے چارے کا انتظام کر دیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More