’اے خدا نیپالی نوجوانوں کو سعادت مند بنا دے‘

بی بی سی اردو  |  Sep 12, 2025

Getty Images’نیپال میں جب تخت و تاج اچھلا تب بھی یہی توقع تھی کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کوریج سے نہایا ہوا پاکستانی میڈیا اور نہال ہو جائے گا‘

جب مارچ 2022 میں تباہ کن معاشی پالیسیوں اور آمریت سے اُکتائے سری لنکا کے نوجوانوں نے کولمبو اور دیگر شہروں میں راجہ پکسا خاندان کے خلاف مظاہرے شروع کیے تھے تو پاکستانی میڈیا نے نہایت دلچسپی سے اس کا نوٹس لیا۔

تجزیہ کاروں کو پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں یکایک مماثلت لگنے لگی۔ خاندانی سیاست کے نقائص پر کُھل کُھلا کے روشنی ڈالی گئی۔

یعنی کیا مذاق ہے کہ ایک ہی خاندان 25 برس سے سری لنکا کی سیاست پر حاوی ہے۔ ایک بھائی (گوٹا بایا راجہ پکسا) صدر ہے، دوسرا بھائی (مہندا راجہ پکسا) وزیرِ اعظم ہے، تیسرا بھائی باسل راجہ پکسا وزیرِ خزانہ ہے۔ چوتھا بھائی چمل راجہ پکسا پہلے پارلیمنٹ کا سپیکر رہا، پھر جہاز رانی اور بندرگاہوں کا قلمدان لے لیا اور اب وزیرِ زراعت ہے۔ جبکہ وزیرِ اعظم مہندا کا جواں سال بیٹا نمل راجہ پکسا کھیل اور امورِ نوجوانان کا وزیر اور خاندان کا ولی عہد بھی ہے۔

جولائی 2022 میں دیوالیہ سری لنکا پر حکمران خاندان کا سیاسی دیوالیہ نکل گیا اور سب بھائی بھتیجے ملک سے فرار ہو گئے تو پاکستان میں بھی خاندانی سیاست کے دشمنوں کا سینہ زرا اور چوڑا ہو گیا۔

پکسا خاندان کے زوال کی خبروں سے صرف ڈھائی ماہ پہلے برطرف ہونے والے عمران خان کے حامیوں کے سینے میں ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے‘ ٹائپ جذبات امڈنے لگے۔

یہ محاورہ ان دنوں کے ٹی وی ٹاک شوز کا تکیہ کلام ہو گیا کہ پاکستان بھی سری لنکا بننے کی پگڈنڈی پر ہے۔ مگر چشمِ فلک نے دیکھا کہ یہ پگڈنڈی براستہ نو مئی اور آٹھ فروری کہاں کہاں سے گزر کے آج کہاں تک آن پہنچی۔

AFP2022 میں سری لنکا میں پرتشدد احتجاج کے دوران مظاہرین نے حکمران راجا پکشے خاندان کے گھر جلا دیے تھے

جب گذشتہ برس پانچ اگست کو جوان خون کے سیلابی غصے کی تاب نہ لاتے ہوئے 15 برس سے مطلق العنان شیخ حسینہ واجد ڈھاکہ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر انڈیا فرار ہوئیں تو پاکستانی میڈیا کو گویا کُھلی چھوٹ مل گئی کہ بنگلہ دیش کے حالات پر جیسے چاہو روشنی ڈالو اور ڈلواؤ۔

ہماری خاندانی حکمران اشرافیہ میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بنگلہ دیش کی نئی قیادت کا دل بھی کچھ نرم ہوا۔ یوں حسینہ واجد کے زوال کے بنیادی اسباب پر سنجیدہ گفتگو کا امکان پاکستان اور بنگلہ دیش تعلقات کی تیز رفتار بحالی کی مسرتی فضا میں کہیں گم ہو گیا۔

چنانچہ نیپال میں جب تخت و تاج اچھلا تب بھی یہی توقع تھی کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کوریج سے نہایا ہوا پاکستانی میڈیا اور نہال ہو جائے گا۔

لیکن جب پارلیمنٹ، وزیرِ اعظم ہاؤس اور وزرا کے گھروں کی آتشزدگی، توڑ پھوڑ، سڑکوں پر 21ویں صدی کے غضبناک جین زی بچوں سے جان بچاتے بیوروکریٹس کے خون آلود پھٹے گریبانوں کی فوٹیجکھٹمنڈو سے اُترنے لگی تو ہم جیسوں کو وخت پڑ گیا کہ ان تصویروں کا کیا کریں؟

’تحریک کو موقع پرستوں نے ہائی جیک کر لیا‘: ’جین زی‘ گروپس کا نیپال میں پُرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اعلان’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیقبلن شاہ: کسی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر مقبولیت پانے والے ریپر سٹار جنھیں نیپال کے نوجوان مرکزی کردار میں دیکھنا چاہتے ہیںانڈین حکومت کی ’مہمان‘ شیخ حسینہ کا ممکنہ ’جانشینی منصوبہ‘ کیا ہے؟

نیپالی سوشل میڈیا کے استعمال پر مکمل پابندی کا حکم نامہ عوامی غصے میں بہہ جانے کی خبروں اور اقربا پرور کرپٹ حکمران طبقات کی بگڑی لاڈلی عیش پسند نیپو نسل کے الللوں تللوں کی ٹک ٹک اور انسٹاگرام ریلیں کیسے دکھائیں؟

سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کھلم کھلا کوریج میں تو ہمیں یہ سہولت حاصل تھی کہ وہاں جو بھی غدر ہوا وہ کسی مخصوص حکمران خاندان یا کسی ایک فسطائی شخصیت کے خلاف تھا۔ مگر نیپال میں تو پوری کی پوری دائیں اور بائیں پر مشتمل پولٹیکل کلاس، حاشیہ بردار عدلیہ، بدعنوان بیوروکریسی، کاسہ لیس میڈیا اور اس مست نظام کا ستون بننے والے بچولئے جین زی تحریک کے نشانے پر تھے۔ اب کیا کریں؟

Getty Images’ایسی ہوش ربا انارکی کے مضر بصری اثرات سے قوم کو بچانے کے لیے 'ذمہ دار اور بردبار میڈیا' کو احتیاط کا راستہ چننے کا مشورہ موصول ہوا‘

چنانچہ ایسی ہوش ربا انارکی کے مضر بصری اثرات سے قوم کو بچانے کے لیے ’ذمہ دار اور بردبار میڈیا‘ کو احتیاط کا راستہ چننے کا مشورہ موصول ہوا۔

تحملانہ کوریج کی حکمیہ درخواست کے سبب پاکستانی میڈیا میں نو ستمبر سے اب تک نیپال کی جو تصویر ابھری ہے اس کا مجموعی خلاصہ و بیانیہ یہ ہے کہ طبقاتی محرومیوں، کرپشنسے نجات، آزادی اظہار اور احتساب کا نعرہ ضرور لگنا چاہیے لیکن ریاستی اداروں اور ڈھانچے کو اس حد تک مفلوج نہیں کرنا چاہیے کہ معاملات کسی کے ہاتھ میں نہ رہیں۔

نیپالی نوجوانوں کو یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ کہیں انھیں انارکی کی کھائی میں دھکیلنے کے پردے میں کسی بیرونی طاقت (انڈیا وغیرہ) کا مفاد تو پورا نہیں ہو رہا وغیرہ وغیرہ۔

میری نسل کو یاد ہے کہ دورِ ضیا میں حکمران کی اطاعت کی بنیادی شرائط سنسر کر کے اداریوں، مضامین اور اشفاق احمد کے ٹی وی ڈراموں کے ذریعے صرف اولی الامر یعنی اطاعتِ امیر پر پورا زور دیا جاتا تھا۔

مگر اولی الامر کی جو تشریح فیض صاحب نے اپنی نظم ’ندائے غیب‘ میں کی اس کی اشاعت و گفتگو تب بھی قابلِ گرفت تھی اور آج تو خیر اس قماش کی بہکاؤ شاعری پر سائبر قوانین کا بھی پہرہ ہے۔

مجھے کیوں شک ہے کہ کسی شرپسند نے سنہالہ، بنگلہ یا نیپالی میں فیض صاحب کا کہیں چپکے سے ترجمہ نہ کر ڈالا ہو۔

ہر اک اولی الامر کو صدا دو کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے

اٹھے گا جب جمِ سرفروشاں، پڑیں گے دار و رسن کے لالے

کوئی نہ ہوگا کہ جو بچالے

جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی، یہیں عذاب و ثواب ہو گا

یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر، یہیں پہروزِ حساب ہو گا۔

خدا نیپالی نوجوانوں کو سعادت مندی کی راہ دکھائے، نیک چلن کی توفیق دے، بزرگوں کا ادب اور تابعداری سکھائے، وسیع تر قومی مفاد کو پرکھنے کا اہل بنائے، نفاق کے زہر اور حسد سے بچائے۔ آمین ثم ِ آمین۔۔۔

’تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہو گا دیکھا جائے گا‘بدنیتی، بدعہدی، بد انتظامی اور نئے صوبے’کچھ تو ہے اپنے کامران بھائی ٹیسوری میں‘’پی ٹی آئی اور پیتل کا چمکتا باجا؟‘’نام نہاد غیرت کسی صوبے یا طبقے کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More