Getty Images
چین کی سرحد کے نہایت قریب انڈیا کے زیرانتظام لداخ کی آبادی روایتی طور پر انڈین حکومتوں کی حامی رہی ہے مگر گذشتہدہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ یہاں ہونے والے مظاہرے پُرتشدد احتجاج میں بدلے اور مظاہرین پر انڈین فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں چار شہریوں کی ہلاکت کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔
اس حالیہ کشیدگی کی جڑیں سنہ 2019 میں انڈین پارلیمان میں ہونے والے اُس بڑے فیصلے سے جڑی ہیں جس کے تحت انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اعلان کیا گیا تھا۔ انڈین حکومت اور بی جے پی کے حامیوں نے اس فیصلے کو ’مودی کا ماسٹر سٹروک‘ قرار دیا تھا۔
اگرچہ اس فیصلے کے خلاف گذشتہ تقریباً پانچ برسوں میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تو کوئی خاص عوامی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی، لیکن لداخ میں گذشتہ چند برسوں کے دوران اس معاملے پر دبے الفاظ میں جو باتیں ہو رہی تھیں وہ حالیہ دنوں میں ایک ہمہ گیر عوامی احتجاج کی صورت میں سامنے آئیں۔
واضح رہے کہ پانچاگست 2019 کے انڈین پارلیمان کے اس غیرمعمولی فیصلے کے تحت جموں کشمیر کو تقسیم کر کے لداخ کو اس سے الگ کر دیا گیا تھا اور لداخ کو بغیر اسمبلی کے مرکزی انتظام والا خطہ یا یونین ٹیریٹری قرار دیا گیا تھا۔ اس کے برعکس جموں کشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا تھا۔
لداخ میں سنہ 2019 کے بعد سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ لداخ کو باقاعدہ ریاست کا درجہ دیا جائے اور لداخ میں رہنے والوں کی شناخت، ثقافت اور ماحولیات کو انڈین آئین کے شیڈول چھ کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے۔
مقامی سائنسدان اور ماحولیاتی تبدیلی کے رضاکار سونم وانگچُک اِن مطالبات پر مبنی تحریک کا چہرہ بن کے سامنے آئے۔ وہ لداخ میں بسنے والے بودھوں کی ’لیہہ ایپکس باڈی‘ اور مقامی مسلمانوں کی ’کرگل ڈیموکریٹک الائنس‘ کے مشترکہ بینر تلے کئی برس سے اِن ہی مطالبات کے حق میں تحریک چلا رہے تھے۔
گذشتہ برسوں کے دوران انھوں نے کئی مرتبہ بھوک ہڑتال بھی کی اور اپنے ساتھیوں سمیت لیہہ سے نئی دلّی تک مارچ بھی کیا۔ گذشتہ برس انڈین حکومت نے وانگچُک اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار منعقد کیے، تاہم یہ سبھی بے نتیجہ ثابت ہوئے۔
یہی مطالبات لیے وانگچُک گذشتہ ماہ یعنی ستمبر میں لیہہ کے ’شہید پارک‘ میں اپنے ساتھیوں سمیت دوبارہ دو ہفتوں کی بھوک ہڑتال پر بیٹھے۔ بھوک ہڑتال میں اُن کے ساتھ بیٹھے دو بزرگ شہری 23ستمبر کو بھوک سے نڈھال ہو کر بے ہوش ہوئے تو مقامی نوجوانوں اور آبادی میں اشتعال پھیل گیا۔
24 ستمبر کو نوجوانوں نے لیہہ کی مقامی انتظامی کونسل کے ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کیا اور پولیس کے مطابق اس موقع پر نوجوانوں نے پتھراؤ کیا جس کے جواب میں سکیورٹی فورسز نے اپنی حفاظت کی غرض سے گولی چلا دی۔ تاہم ایپیکس باڈی کے رہنما چیرین دورجے لاکرُک کہتے ہیں کہ ’اس موقع پر ہونے والی فائرنگ سے نوجوان مزید مشتعل ہو گئے اور انھوں نے سرکاری عمارتوں اور بی جے پی کے مقامی دفتر پر دھاوا بول دیا۔‘
BBCلداخ میں بی جے پی کے دفتر میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا تھا
فائرنگ اور بدامنی کے اس نوعیت کے واقعات میں چار شہری ہلاک ہوئے جن میں ایک سابق فوجی اہلکار بھی شامل تھا۔ اس کے بعد حکام نے لداخ میں کرفیو نافذ کرکے سونم وانگچُک کو ’نیشنل سیکورٹی ایکٹ‘ کے تحت گرفتار کر لیا اور انھیں لداخ سے دور ریاست راجھستان کی جیل میں قید کر دیا گیا۔
اس واقعات کے تناظر میں گذشتہ دو ہفتوں سے لداخ میں تناؤ پایا جاتا ہے۔ کرفیو میں دن کے اوقات میں نرمی کی جاتی ہےتاہم ابھی بھی خطے میں چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
’سر پر بندوق رکھ کر چُپ کرانا نارملسی نہیں‘
لداخ کے لیفٹنٹ گورنر کوِندر گپتا کا دعویٰ ہے کہ اب یہاں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔
بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’لداخ کی عوام انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ ہم نے کرفیو میں دن کے اوقات میں نرمی کی ہے۔ سکول اور کالج کُھل گئے ہیں جبکہ تجارتی سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں۔ لیکن کچھ عناصر ہیں، جو اپنے معمولی سیاسی فائدے کے لیے لوگوں کو اُکسانا چاہتے ہیں۔‘
وانگچُک کے ساتھی اور لیہہ ایپیکس باڈی کے نائب سربراہ چیرین دورجے لاکرُک کہتے ہیں کہ لداخ کے لوگ نئی دلیّ کی ’وعدہ خلافی پر بہت ناراض ہیں۔‘ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سونم وانگچُک کی گرفتاری ناصرف غیرقانونی بلکہ بلاجواز ہے۔
لاکرُک کہتے ہیں کہ ’آپ سر پر بندوق رکھو گے، پولیس اور فورسز تعینات کروگے، انٹرنیٹ بند رکھو گے اور کہو گے کہ نارملسی (معمول کی زندگی کی بحالی) ہے، یہ تو غلط بات ہے۔ ہم کوئی جرم نہیں کر رہے تھے، پُرامن دھرنے میں انڈین حکومت کو اُن ہی کا کیا ہوا وعدہ یاد دلا رہے تھے۔‘
یاد رہے کہ انڈین وزارت داخلہ نے لداخ کے سیاسی اتحاد کے رہنماؤں کے ساتھ چھ اکتوبر کے روز مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان کیا تھا لیکن ستمبر میں ہوئے تشدد اور گرفتاریوں کے بعد لیہہ ایپکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس نے مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور اور مذاکرات کے لیے سونم وانگچُک سمیت سبھی گرفتار افراد کی رہائی اور ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کی شرط عائد کی تھی۔
لداخ کے نوجوان کیا چاہتے ہیں؟Getty Imagesلداخ کے نوجوان اپنے وسائل، ماحولیات، روزگار کے مواقع اور ثقافت کو لے کر کافی حساس ہیںلداخ میں مظاہروں کے بعد سونم وانگچک گرفتار: ’وہ پاکستانی انٹیلیجنس اہلکار سے رابطے میں تھے‘، پولیس کا دعویٰپاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج: ’خبر ملی کہ ایک نوجوان پولیس پر پتھراؤ کر رہا تھا، اسے گولی لگی ہے، ہسپتال پہنچ کر دیکھا تو وہ میرا بیٹا تھا‘ ہنزہ کی چراگاہ اور ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ: وہ معاہدہ جس نے چین کی پاکستان سے دوستی کی بنیاد رکھیجب ایک انگریز فوجی افسر نے پاکستان کے حق میں بغاوت کی
لداخ میں نوجوانوں کی اکثریت وانگچُک کی اہم مطالبات پر مبنی تحریک کی حمایت کرتی ہے۔
صحافی اور سماجی کارکن رِگزِن انگمو کہتی ہیں کہ ’یہ سبھی مطالبات آئینی اور قانونی ہیں۔ لیکن جس طرح سے ان مطالبات کے ردعمل میں لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں، کرفیو نافذ کیا گیا اور درجنوں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، اُس سے نوجوانوں میں کافی غصہ پھیلا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ انڈین حکومت کو اِن غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے لداخ کے رہائشیوں کے مطالبات کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
لداخ کے نوجوان اپنے وسائل، ماحولیات، روزگار کے مواقع اور ثقافت کو لے کر کافی حساس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لداخ کے خطے میں انڈین آئین کے شیڈول چھ کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس شیڈول کے تحت سرحدی آبادیوں اور قبائلی بستیوں میں بیرونی سرمایہ کاری پر پابندی ہوتی ہے اور ایسے علاقوں میں پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع پر مقامی آبادی کا ہی حق ہوتا ہے۔
سماجی کارکن متصف احمد کہتے ہیں کہ لداخ کے عوام کو خطرہ ہے کہ وہ لداخ میں انڈیا بھر سے آنے والے سرمایہ کاروں کی وجہ سے اپنا وجود ہی کھو دیں گے۔ ’تین لاکھ سے بھی کم کی آبادی والا لداخ ایسی صورتحال میں برباد ہو جائے گا۔ ہمارے سبھی نوجوان بیروزگار ہیں، یہاں کے پہاڑوں کو خطرہ ہو گا اگر یہاں اندھا دھُند فیکٹریاں لگائی گئیں۔ اسی لیے ہم انڈین حکومت سے آئینی ضمانت چاہتے ہیں اور وہ بھی آئین کے مطابق۔‘
BBCلداخ کی آبادی روایتی طور پر انڈین حکومتوں کی حامی رہی ہے
سونم وانگچُک کی حامی مقامی سماجی کارکن دیسکِت انگمو کہتی ہیں کہ ’ہم عدالتی تحقیقات کا مطالبہ ہی اس لیے کرتے ہیں کہ معلوم ہو اُس دن تشدد کس نے بھڑکایا۔ ہماری تحریک شروع سے ہی پُرامن رہی ہے اور عدم تشدد کے اصول پر پوری آبادی یقین رکھتی ہے۔ ہم مطالبات منوانے تک پرُامن احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
قابل ذکر ہے کہ انڈیا میں بھی سونم وانگچُک کی گرفتاری پر رائے عامہ دو متوازی بیانیوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ لداخ کی انتظامیہ نے جب یہ الزام عائد کیا کہ وانگچُک کسی غیرملکی سازش کا حصہ ہیں تو سوشل میڈیا پر بی جے پی کے حامی صارفین نے وانگچُک کو ’پاکستان اور چین کا ایجنٹ‘ تک قرار دیا۔ تاہم دوسرے حلقوں نے اُن کی گرفتاری کو ’انڈیا کے قومی مفاد کو نقصان‘ پہنچانے کے مترادف قرار دیا۔
لداخی رہنما چیرِن دورجے لاکرُک یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جب آرٹیکل 370 کو ہٹا کر لداخ اور کشمیر کو دو الگ الگ یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کیا گیا تو لداخ والوں نے جشن منایا۔ ’ہمیں تو کہا گیا تھا اب یہاں دودھ کی ندیاں بہیں گی۔ لیکن اب یہ احساس ہوا ہے کہ ہم آرٹیکل 370 میں ہی محفوظ تھے، کم از کم جو ہم اس وقت مانگ رہے ہیں ، اس کی گارنٹی اُس دفعہ میں موجود تھی۔‘
یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کے سبھی خطوں یعنی وادی کشمیر، جموں اور لداخ میں انڈیا کی کسی بھی ریاست کا باشندہ نہ زمین خرید سکتا تھا نہ نوکری کے لیے درخواست دے سکتا تھا۔ لیکن سنہ 2019میں اس آرٹیکل کو پارلیمنٹ میں ایک بل کے ذریعہ منسوخ کر دیا گیا۔
’یہ نہ بھولیں کہ لداخ چین کی سرحد پر ہے‘BBC’لداخ میں ہماری ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سرحد چین سے ملتی ہے‘
نئی دلّی میں مقیم سلامتی امور کے ماہر اور انڈیا کے سابق سفیر برائے قرغزستان پھونسوک ستوبدن خود بھی لداخ شہری ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ لداخ سے متعلق معاملات سے مودی حکومت صحیح طرح سے نہیں نمٹی۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ نہ بھولیں کہ لداخ چین کی سرحد پر ہے۔ لداخ میں ہماری ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سرحد چین سے ملتی ہے اور چین کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے تناؤ کی صورتحال ہے۔ ایسے میں آپ اُن لوگوں کو کیسے ناراض کر سکتے ہیں جو ایسی حساس سرحد پر آپ کی آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے انڈین حکومت پر زور دیا کہ وہ لداخ کے لوگوں کے ساتھ مشاورت کرکے اُن کو لاحق خدشات کا ازالہ کریں۔
پھونسوک ستوبدن کے مطابق لداخ کو یونین ٹیریٹری بنا کر اُس کو ہزاروں کلومیٹر دُور گجرات، مہاراشٹرا، جھارکھنڈ اور اُڑیسہ سے لائے گئے افسروں کے حوالے کرنا غلط بات ہے۔ ’جس بِل کے تحت لداخ کو یونین ٹیریٹری بنایا گیا، اُس میں لکھا ہے کہ لیفٹنٹ گورنر کے باقاعدہ مشیر ہوں گے، لیکن یہاں اُوپر گورنر ہے اور نیچے غیرمقامی افسر، ایسے میں لوگوں کا ناراض ہونا یقینی تھا۔‘
سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ’شیڈول چھ اور نوکریوں یا ماحولیات کا تحفظ ابھی تک ایک سیاسی نعرہ تھا، لیکن اب یہ ایک جذباتی تحریک بن گئی ہے، جو ملکی مفاد میں نہیں۔‘
انڈین آئین میں چھٹے شیڈول کو 1949 میں شمال مشرقی ریاستوں آسام، میگھالیہ، میزورم اور تریپورہ میں قبائلی آبادی کو خودمختاری دینے لیے منظور کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس شیڈول کی ایک شِق کے تحت لداخ کو مقامی انتظامی کونسلز بنانے کا اختیار بہت پہلے دیا گیا تھا لیکن اب وہاں کے لوگ شمال مشرقی ریاستوں کی طرز پر یہ گارنٹی چاہتے ہیں کہ وہ زراعت، ماحولیات، مقامی معیشت اور سیاحت سے جُڑے معاملات میں خود قانون سازی کریں، جو یونین ٹیریٹری سیٹ اپ میں ممکن نہیں ہے۔
چھٹے شیڈول کی رعایات آرٹیکل 371 کی مختلف شِقوں میں درج اُن رعایتوں سے زیادہ ہیں جو شمال مشرقی ریاستوں ناگا لینڈ اور میزورم کو حاصل ہیں۔ ان رعایتوں کے تحت مرکز مقامی اسمبلی کی رضامندی کے بغیر ماحولیات اور زمین کے استعمال سے متعلققانون سازی نہیں کر سکتا۔
حالانکہ گذشتہ دنوں انڈین وزیرِ داخلہ نے ایل اے بی اور کے ڈی اے کے نمائندوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ لداخ کو آرٹیکل 371کے تحت رعایات دینے پر غور کریں گے تاہم لداخ کی آبادی اپنے مطالبات پر بدستور بضِد ہے۔
گو کہ لداخ کی 97 فیصد آبادی کی نسلی شناخت قبائلی ہے مگر انڈین وزارت داخلہ کا ماننا ہے کہ چھٹے شیڈول کو منظور کرتے وقت اسے صرف شمال مشرقی ریاستوں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔
لداخ میں مظاہروں کے بعد سونم وانگچک گرفتار: ’وہ پاکستانی انٹیلیجنس اہلکار سے رابطے میں تھے‘، پولیس کا دعویٰپاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج: ’خبر ملی کہ ایک نوجوان پولیس پر پتھراؤ کر رہا تھا، اسے گولی لگی ہے، ہسپتال پہنچ کر دیکھا تو وہ میرا بیٹا تھا‘ جب کشمیر ’ایشیا کے سب سے بڑے بدمعاش‘ کو 75 لاکھ روپے میں بیچ دیا گیاجب ایک انگریز فوجی افسر نے پاکستان کے حق میں بغاوت کیمہاتما گاندھی کے بیٹے جنھوں نے باپ سے ناراض ہو کر اسلام قبول کیا اور نام عبداللہ رکھ لیاہنزہ کی چراگاہ اور ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ: وہ معاہدہ جس نے چین کی پاکستان سے دوستی کی بنیاد رکھی