Getty Images
کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ آدھی رات کو اچانک جاگ جائیں اور پھر دوبارہ سو نہ پائیں؟
بے خوابی یا انسومنیا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر متاثر کر سکتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے نیند نہ آنے کی یہ کیفیت مختصر مدت سے آگے بڑھ جاتی ہے اور کچھ زیادہ سنگین ہوجاتی ہے۔
بہت سے عوامل ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ہمیں بے خوابی کیوں ہوتی ہے؟ کب مدد لینی ہے؟ اور کیسےعمر بڑھنے، رات کو پیشاب کی حاجت، مینوپاز، یا شفٹوں میں کام کرنے جیسے عوامل اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بی بی سی انسائیڈ ہیلتھ کی ٹیم نے ماہرین کا ایک پینل اکٹھا کیا جنھوں نے کچھ حیران کن مشورے بھی دیے۔
ماہرین کی اہم تجاویز
سسیکس یونیورسٹی میں نفسیات کے لیکچرر ڈاکٹر فیتھ آرچرڈ کے مطابق ’ایسا عام طور پر تب ہوتا ہے جب میرا دماغ الجھا ہو اور میں حد سے زیادہ سوچوں۔ لہٰذا میں ایک کتاب اٹھاتا ہوں اور اس وقت تک پڑھتا ہوں جب تک کہ میں تھوڑا سا پُرسکون نہیں ہو جاتا۔‘برٹش سلیپ سوسائٹی کے صدر اور لندن کے رائل برومپٹن ہسپتال میں سلیپ میڈیسن کے کنسلٹنٹ فزیشن ڈاکٹر ایلی ہیئر کا کہنا ہے کہ ’جب میں سو نہیں پاتی تو عام طور پر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میرے شوہر بستر پر کروٹیں بدل رہے ہوتے ہیں اور خراٹے لے رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے میں ’سلیپ ڈائورس‘ یعنی ’سونے کے لیے طلاق‘ کی تکنیک کا استعمال کرتی ہوں اور خالی کمرے میں جا کر سو جاتی ہوں۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں سلیپ میڈیسن کے پروفیسر کولن ایسپی کا کہنا ہے کہ ’جب میں اچھی طرح سے سو نہیں پاتا تو سسٹم کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایک بار اٹھ کر دوبارہ بستر پر جاتا ہوں اور یہ عام طور پر اس وجہ سے ہوتا ہے جب میرے ذہن میں کچھ چل رہا ہو۔ میرا خیال ہے کہ زیادہ تر لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔‘
پروفیسر ایسپی انسومنیا کی یہ تعریف کرتے ہیں ’اگر ایک بُری رات کئی راتوں میں بدل جائے اور کئی ہفتے تین مہینے یا اس سے زیادہ میں بدل جائیں تو ہم اسے بے خوابی کہتے ہیں۔‘
ڈاکٹر آرچرڈ کا کہنا ہے کہ انسومنیا کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ’عام خیال ہے کہ اس میں نیند نہیں آتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے خوابی سونے اور سوئے رہنے کے بارے میں ہے۔ لہٰذا کچھ لوگوں کے لیے یہ آدھی رات کو جاگنے کے بعد دوبارہ سونے کی جدوجہد یا صبح جلدی اٹھنا اور پھر دوبارہ بالکل بھی نہ سونا ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر ہیئر کہتے ہیں کہ انسومنیا کی علامات واقعی عام ہیں۔ تقریبا 50 فیصد افراد کو انسومنیا کی علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ تین ماہ سے زیادہ عرصے تک ہر ہفتے تین سے زیادہ راتوں کو نیند کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں اور یہ اگلے دن آپ کی زندگی کو متاثر کرتا ہے تو یہ طبی مدد حاصل کرنے کا وقت ہے۔
وہ تجویز کرتی ہیں کہ آپ مقامی فارماسسٹ اور پھر ڈاکٹرکے پاس جائیں۔
Getty Imagesدماغ میں انسومنیا یا بے خوابی کا سبب کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر آرچرڈ کا کہنا ہے کہ دو عوامل ہیں جو ہمیں سونے اور جاگنے میں مدد دیتے ہیں۔
'(پہلا) نیند کے ہارمونز جو دن بھر نیند اور بیداری کو متحرک کرتے ہیں۔۔۔ اگر وہ ہم آہنگ نہ رہیں، جیسے اگر ہم دوپہر کو سوئے، تو یہ عمل ترتیب وار نہیں ہوسکتا ہے اور ہمارے لیے سونا مشکل ہوسکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دوسری چیز بیرونی محرکات یا عوامل جیسے تناؤ ہے۔
پروفیسر ایسپی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بے خوابی کی ایک ارتقائی وجہ بھی ہے۔ ’ہم اب بھی نیند پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ ارتقا نے نیند کو ختم نہیں کیا ہے۔ درحقیقت ہم بہت زیادہ نیند لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بڑے دماغ ہیں جن کو بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
’لیکن ہم خطرے کے ردعمل سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے لہذا اگر آپ کے ذہن پر کوئی بات سوار ہے تو آپ کا دماغ آپ کو جگائے رکھتا ہے اور کسی ایسی چیز کے بارے میں سوچنا چاہتا ہے جو آپ کو پریشان کر رہی ہے کیونکہ یہ تشویش سنگین ہوسکتی ہے، یہ خطرے والی بھی ہوسکتی ہے۔'
ڈاکٹر ہیئر نے یہ بھی کہا کہ کچھطبی حالات بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ 'میں یہ نہیں کہوں گا کہ بے خوابی کا شکار ایک خاص طرح کا فرد ہوتا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ دائمی طبی مسائل، دائمی درد والے لوگوں کا نیند کے ساتھ جدوجہد کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بے خوابی اکثر دیگر بیماریوں کے ساتھ آتی ہے اس لیے یہ انگزائٹی، ڈپریشن اور دیگر ذہنی صحت کے حالات کے ساتھ ہوتی ہے۔'
نیند نہیں آتی؟ وہ ایپس جو آپ کی مدد کر سکتی ہیںوہ امراض اور خطرات جو کم دورانیے کے لیے سونے سے جنم لے سکتے ہیںپرُسکون نیند کے لیے صدیوں سے استعمال ہونے والے ٹوٹکوں کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے؟رات کی بہترین نیند کا حصول کیسے مُمکن ہے؟
پروفیسر ایسپی کا کہنا ہے کہ عمر بھی ایک عنصر ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'نیند کا نظام بھی بوڑھا ہوتا ہے اور جسم کی گھڑی کے نظام کی بھی عمربڑھتی ہے۔ نیند کا نظام دراصل نیند کی مقدار اور آپ کی نیند کی گہرائی سے متعلق ہے اور گھڑی کا نظام نیند کے وقت کے بارے میں ہے۔ جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے نیند قدرتی طور پر تھوڑی زیادہ منقسم ہوجاتی ہے۔'
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’لیکن گھڑی کی عمر بھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ایک نوعمر نوجوان دیر سے سوتا ہے اور دیر سے جاگتا ہے۔ لیکن ایک بوڑھا بالغ جلدی سو جاتا ہے اور صبح جلدی اٹھ جاتا ہے اور اسے دوبارہ سونے میں مشکل ہوتی ہے۔‘
پروفیسر ایسپی کا مزید کہنا ہے کہ جینیات بھی اس میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔
وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 'تناؤ اور جذبات کے اظہار میں ہچکچاہٹ یا ضرورت سے زیادہ جذبات کا اظہار یہ سب خاندانی وراثت میں ملتے ہیں۔‘
’یعنی ایک شخص جو صبح جلدی اٹھتا ہے یا ایک شخص جو رات دیر تک جاگتا رہتا ہے، یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ تاہم انسومنیا کی وجوہات ایک سے زیادہ ہوتی ہیں۔‘
Getty Imagesاگر آپ سو نہیں سکتے تو کیا کریں؟
اگر آپ آدھی رات کو جاگنے کے بعد دوبارہ سو نہیں سکتے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟
پروفیسر ایسپی وضاحت کرتے ہیں کہ سونے کی کوشش کرنے میں ایک خاص تضاد ہے۔
’صبح کے وقت ہماری نیند کی حاجت کم ہو رہی ہوتی ہے اس کے علاوہ آپ شاید اس کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ 'میں دوبارہ سو نہیں سکتا' اور یہ نیند کا دشمن ہے کیونکہ میرے تجربے میں، کوئی بھی سو نہیں سکتا ہے اور جب آپ سونے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ جاگتے رہتے ہیں اور میرے خیال میں یہی چیز مشکل ہے۔'
ان کی رائے میں اس دوران بہترین فیصلہ یہ ہے کہ آپ اس وقت سونے کی بجائے جاگتے رہنے کا فیصلہ کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نیند کے خلاف مزاحمت دکھائیں اور اسے قدرتی طور پر آنے دیں۔
یہ ایسا ہی ہے کہ ’جب آپ نہ شرمانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ زیادہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ جب آپ نہ ہچکچانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ زیادہ ہچکچاتے ہیں۔۔۔
’لہٰذا یہ ہمیں ایک بہت اہم بات بتاتا ہے کہ دماغی عمل اس کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں اور یہ کہ ہمیں اس عادت کو تشکیل دینے اور اس پر مستقل توجہ دیے بغیر اسے اپنانے کے لیے صحیح طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح آپ کی نیند اچھی ہو سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر آرچرڈ کا کہنا ہے کہ ایسی سادہ چیزیں ہیں جو ہم کر سکتے ہیں جو ہمیں اچھے معمولات اپنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ ’مستقل مزاجی ایک چیز ہے جس پر کام کرنا ہے۔ مستقل اوقات میں بستر پر جانا، اور ایک ہی وقت پر جاگنا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ہم کہاں سوتے ہیں اس پر مستقل مزاجی سے کام کرنا، دماغ کو یہ بتانا کہ ہم کہاں سوتے ہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ایسا ہوتا ہے۔ صوفے پر سونے سے بچنے کی کوشش کرنا، بستر پر کام کرنے سے بچنے کی کوشش کرنا۔
ڈاکٹر ہیئر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اگر آپ جاگ رہے ہیں اور نیند محسوس نہیں کر رہے تو آدھے گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک بستر سے اٹھنا اور کچھ اور کرنا چاہیے۔ اس کے بعد آپ کو بستر پر جانا چاہیے۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ آپ جاگ رہے ہیں تو بستر سے باہر نکل جائیں۔‘
Getty Imagesڈاکٹرز کہتے ہیں کہ سونے کے لیے نیند کی دوا ہر گز نہ لیں
نیند کی دوا کے بارے میں کیا خیال ہے؟
نہ تو ڈاکٹر ہیئر اور نہ ہی پروفیسر ایسپی خاص طور پر اس کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک قسم کی سائیکو تھراپی لوگوں کو ان کے سوچنے اور برتاؤکے طریقے کو تبدیل کر کے مسائل کے حل میں مدد کرتی ہے۔ اور یہ نیند کی مشکلات کو دور کرنے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ہے۔
ڈاکٹر ہیئر کہتی ہیں کہ ’بے خوابی کا بہترین علاج کگنیٹو بیہیویورل تھراپی ہے اور یہ 70-80 فیصد افراد میں کام کرتا ہے اور ان میں سے 50 فیصد افراد اپنی بے خوابی پر مکمل قابو پا لیتے ہیں۔'
پروفیسر ایسپی کا کہنا ہے کہ کچھ مریضوں کو یقین نہیں ہوتا کہ تھراپی ادویات سے بہتر کام کرے گی۔
'لیکن حقیقت میں اگر ہم سی بی ٹی کے اندر ایک تکنیک کی صرف ایک مثال لیتے ہیں جسے نیند کی پابندی تھراپی کہا جاتا ہے تو ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بہت کم وقت کے لیے بستر پر جائیں جب تک کہ نیند دوبارہ نہیں آ جاتی، تھوڑی دیر تک جاگتے رہیں، تھوڑی جلدی اُٹھ جائیں۔ '
کچھ لوگ میگنیشیم کی قسم کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سونے کے وقت اسے لینے سے واقعی رات کی اچھی نیند حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لیکن ڈاکٹر آرچرڈ کا کہنا ہے کہ اس پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے، صرف نسبتاً چھوٹے پیمانے پر مطالعہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان نتائج کو ہم چھوٹے پیمانے کے اثرات کہتے ہیں لہٰذا ہم نیند میں بڑی تبدیلی نہیں دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہم کہیں گے کہ اس وقت شواہد بہت غیر حتمی ہیں۔'
میلاٹونن بہت سے ممالک میں نسخے کے بغیر دستیاب ہے جبکہ بعض ملکوں میں اسے نسخے کے بغیر خریدا نہیں جا سکتا۔ ڈاکٹر ہیئر کہتی ہیں ’اس کا تعلق میگنیشیم کے بارے میں سوال سے ہے اور (کچھ لوگوں) پر اس کے اثرات یہ ہیں کہ ان کی نیند کافی مناسب ہے۔
’لہذا ان میں سے بہت سے سپلیمنٹس اور ادویات کے ساتھ ایک بہت طاقتور پلیسیبو اثر ہوتا ہے۔‘ یاد رہے کہ پلیسیبو اثر دورانِ علاج فرد کی توقعات اور یقین سے آنے والی تبدیلیاں ہے نہ کہ خود علاج کی وجہ سے آنے والی بہتری۔
Getty Imagesنیند پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل یا حالات
مینوپاز، شراب یا رات کی شفٹ جیسی چیزیں کتنا اثر انداز ہوتی ہیں؟ یہ عوامل نیند کو کس طرح متاثر کرتے ہیں؟
ڈاکٹر ہیئر کہتی ہیں کہ ’مینوپاز خواتین کے لیے واقعی مشکل وقت ہو سکتا ہے اور ان کی نیند کو متاثر کر سکتا ہے۔ دونوں صورفتوں میں کہ وہ کتنی دیر تک سو پاتی ہیں اور رات میں کتنی بار جاگتی ہیں۔'
'اس میں ایک تو ہاٹ فلیشز (اچانک گرمی کا احساس) ہوتے ہیں جو واقعی جزوی طور پر نیند میں خلل ڈال سکتے ہیں، یہ ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن جزوی طور پر موڈ کی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی یا یہ مینوپاز کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ مینوپاز کے دور میں ہماری زندگیاں زیادہ تناؤ کا شکار ہوسکتی ہیں۔ ہم اکثر بچوں اور والدین کے درمیان سینڈوچ بن جاتے ہیں، بہت ساری ذمہ داریوں کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے۔'
جب شراب کی بات آتی ہے تو ڈاکٹر آرچرڈ کا کہنا ہے کہ اس سے ہماری نیند کے ترتیب دینے کے انداز یعنی نیند کے مختلف مراحل میں گزارے جانے والے وقت میں تبدیلی آسکتی ہے۔
ان کے مطابق ’لیکن شراب بہت سی دوسری چیزوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے، مثال کے طور پر ٹوائلٹ جانے کی حاجت۔ اس کے علاوہ یہ پٹھوں کو آرام دیتی ہے، اس سے ہم خراٹے لے سکتے ہیں اور یہ ہارمونز کو متاثر کر سکتی ہے جو دوبارہ سونے اور سونے کے اس اہم عمل کا حصہ ہیں۔‘
اگر آپ رات کی شفٹ اور غیر سماجی اوقات میں کام کرتے ہیں تو ایسے میں نیند کو کیسے منظم کریں؟
اس سوال پر ڈاکٹر ہیئر نے مشورہ دیا کہ ’بنیادی نیند کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔
'مثال کے طور پر جب آپ نائٹ شفٹ میں کام نہیں کر رہے ہیں اور آپ اپنے معمول کے وقت پر سو سکتے ہیں تو اسے بہتر بنانے کی کوشش کرنا۔'
چھوٹے بچوں کی وجہ سے رات کو بیدار ہونے کی وجہ سے نیند میں خلل سے کیسے نمٹا جائے؟
ڈاکٹر آرچرڈ کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں کے والدین کو اپنے لیے وقت کے ساتھ ساتھ سونے کے وقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لہذا جب بھی ممکن ہو تو نیند لیں۔'
'کبھی کبھی آپ کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سونا پڑتا ہے کہ آپ کو اپنی اور اپنے بچے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ضروری نیند مل رہی ہے۔ '
نیلی سکرین اور ڈیوائسز کی سکرینیں جو ہمیں بیدار رکھ سکتی ہے ان کے حوالے سے ڈاکٹر آرچرڈ کا کہنا ہے کہ 'ہم آہستہ آہستہ دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ مسئلہ اس سرگرمیوں کی وجہ سے ہے جو ہم کر رہے ہیں نہ کہ آلہ سےآنے والی روشنی سے۔'
’لہٰذا اگر ہم فون پر ایک ایسی سرگرمی کر رہے ہیں جو کافی پُرسکون اور آرام دہ ہے تو اس کا ہماری نیند پر بہت کم اثر پڑے گا بہ نسبت اس سرگرمی کے جو کہ کافی دلچسپ ہے۔‘
پانچ گھنٹے یا اس سے کم سونا آپ کی صحت کے لیے کتنا خطرناک ہے؟نیند نہیں آتی؟ وہ ایپس جو آپ کی مدد کر سکتی ہیںوہ امراض اور خطرات جو کم دورانیے کے لیے سونے سے جنم لے سکتے ہیںہم نیند میں خراٹے کیوں لیتے ہیں اور کیا یہ آواز بند کرنا ممکن ہے؟رات کی بہترین نیند کا حصول کیسے مُمکن ہے؟