سنہ 1965 میں انڈیا چین کے ہاتھوں ہونے والے شکست سے ابھی سنبھلنے کی کوشش ہی کر رہا تھا۔ دوسری جانب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہایت خوشگوار چل رہے تھے اور امریکہ پاکستان کو بھاری فوجی امداد فراہم کر رہا تھا۔
جنگ کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی 6 ستمبر سنہ 1965 کی شب پاکستان نے اچانک انڈین فضائیہ کے اڈوں پر حملہ کر دیا۔
اس حملے میں پٹھان کوٹ میں انڈین فضائیہ کے اڈے پر کھڑے کچھ انڈین لڑاکا طیارے تباہ ہو گئے۔ اس حملے سے پوری انڈین فضائیہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ ناراض سکواڈرن لیڈر ٹبی دیوایا تھے۔
دیوایا نے صرف چھ دن پہلے آدام پور میں نمبر ون سکواڈرن کا چارج سنبھالا تھا۔ وہ کورگھ کے رہنے والے تھے اور ان کا شمار انڈین فضائیہ کے سب سے نڈر فائٹر پائلٹوں میں ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ وہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی بھی تھے۔ انھوں نے 6 نومبر 1954 کو انڈین فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور شروع میں ویمپائر ہوائی جہاز اڑاتے تھے۔
آدام پور آنے سے پہلے وہ حکیم پیٹ ایئر فورس فلائنگ کالج میں انڈین فائٹر پائلٹوں کو تربیت دے رہے تھے۔ جب پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورتحال کا خدشہ بڑھنے لگا تو انھوں نے خود طیارہ اڑانے کی پیشکش کی۔
اُن کی یہ درخواست قبول کر لی گئی اور انھیں آدام پور کے نمبر ون سکواڈرن میں تعینات کر دیا گیا۔
ایان کارڈوزو اپنی کتاب ’بیانڈ فیر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انڈین ایئر فورس کمانڈ ہیڈ کوارٹر نے 6 ستمبر کی رات دیر گئے حکم دیا کہ آدام پور اور ہلواڑہ کے میسٹر اور ہنٹر سکواڈرن پاکستانی فضائی اڈوں پر جوابی حملہ کریں گے۔‘
جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاوہ سڑک جس کی وجہ سے انڈیا پاکستان کے درمیان 65 کی جنگ چھڑیجب انڈین جنگی جہاز پاکستان میں اتر گیاپاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات جب ’ملک بچانے‘ کے لیے پہلی بار مارشل لا نافذ کیا گیا
انھوں نے مزید لکھا کہ ’آدام پور ٹائیگرز کے کمانڈنگ آفیسر او پی تنیجا نے فیصلہ کیا کہ ان کا سکواڈرن پاکستان میں سرگودھا ایئربیس پر حملہ کرے گا، یہ طے پایا تھا کہ 7 ستمبر کی صبح انڈین وقت کے مطابق 5 بج کر 55 منٹ پر سرگودھا پر حملہ کیا جائے گا۔‘
منصوبہ سازوں نے غلطی کی اور سرگودھا کا وقت منتخب کرنے کے بجائے آدام پور کے وقت پانچ بج کر 55 منٹ کا انتخاب کیا۔ وہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ سرگودھا میں طلوع آفتاب کا وقت صبح 6 بج کر 10 منٹ تھا۔ یعنی جب تک میسٹر طیارہ سرگودھا پہنچے گا وہاں اندھیرا ہو گا۔
پی وی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا اپنی کتاب ’دی انڈیا پاکستان ایئر وار آف 1965‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ونگ کمانڈر تنیجا نے آخری وقت میں حملے کے وقت میں 15 منٹ یعنی صبح 6.10 بجے تک تاخیر کرنے کی درخواست کی لیکن ان کی درخواست قبول نہیں کی گئی کیونکہ ہلواڑہ سے ہنٹر سکواڈرن کو بھی آخری وقت پر حملے کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی۔‘
تمام پائلٹ صبح تین بجے بیدار ہوئے
دیوایا اہم حملہ آور ٹیم میں شامل نہیں تھے۔ وہ ریزرو پائلٹ تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ حملے میں صرف اسی صورت میں حصہ لیں گے جب کوئی طیارہ کسی وجہ سے ٹیک آف نہ کر سکے۔
آدام پور سے سرگودھا تک پرواز کا وقت 30 منٹ تھا۔ پورے آپریشن کے لیے صرف ایک گھنٹہ دیا گیا۔
میسٹر طیارے کے پائلٹوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ صرف سرگودھا ایئربیس پر بم گرائیں اور پاکستانی طیاروں سے فضا میں لڑنے کی کوشش نہ کریں۔
پائلٹوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اس دن جلدی رات کا کھانا کھا لیں اور فوراً بستر پر چلے جائیں تاکہ حملے سے پہلے وہ کچھ سو سکیں اور آرام کر لیں۔
صبح تین بجے ان کے معاونین نے تمام پائلٹوں کو جگا دیا۔ ٹھیک صبح 4 بجے، تمام 12 پائلٹ اور دو سٹینڈ بائی پائلٹ جی سوٹ پہنے سکواڈرن کے بریفنگ روم میں پہنچے۔
اس وقت پورا انڈیا سو رہا تھا۔ سرگودھا ایئر بیس کی چار فضائی پٹیاں سرگودھا مین، چھوٹا سرگودھا، واگووال اور بگٹانوالہ تھیں۔
تمام پائلٹوں کی بریفنگ صبح چار بج کر 15 منٹ پر ختم ہوئی۔ لیکن اس حملے کو شروع سے ہی کُچھ مسائل کا سامنا تھا۔
جیسے ہی پائلٹ اپنے جہازوں تک پہنچے، فضائی حملے کا سائرن بج گیا۔ تمام پائلٹ اور تکنیکی ماہرین نے بھاگ کر بنکروں میں پناہ لی۔
پاکستان کے بی 57 طیاروں نے کچھ بم گرائے لیکن کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔
پی وی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا لکھتے ہیں کہ ’جب تنیجا اپنے ہوائی جہاز پر پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ اپنا پیراشوٹ بھول گئے تھے۔ دوسرے طیارے کے برعکس جس میں پیراشوٹ سیٹ کے ساتھ لگے ہوتے ہیں، میسٹر کے پائلٹ کو اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر سیٹ میں فٹ کرنا پڑتا تھا۔‘
’تمام پائلٹ اپنے پیراشوٹ لے کر گئے تھے سوائے کمانڈنگ آفیسر کے جن کا پیراشوٹ ایک ایئر مین لے جاتا تھا۔ جب پیراشوٹ کی تلاش شروع ہوئی تو یہ قریبی کھائی میں پایا گیا۔‘
’دراصل ہوا یہ کہ فضائی حملے کے دوران ایئر مین نے سی او کا پیراشوٹ گڑھے میں پھینک دیا۔ کچھ دیر بعد ونگ کمانڈر تنیجا نے ٹیک آف کر لیا۔ اس وقت پاکستانی حملے کی وجہ سے آدام پور کے رن وے کی لائٹس بند تھیں۔‘
چار طیاروں کے دوسرے سکواڈ کی قیادت سکواڈرن لیڈر ڈینی ستور نے کی۔ سکواڈرن لیڈر سدرشن ہانڈا تیسرے بیچ کے لیڈر تھے۔
کمانڈنگ آفیسر تنیجا نے واضح کیا تھا کہ تمام پائلٹوں کو اپنے اہداف پر حملہ کرکے فوراً واپس آنا ہوگا کیونکہ ان کے پاس دوسری بار حملہ کرنے کے لیے نہ تو وقت ہوگا اور نہ ہی ایندھن۔
ایان کارڈوزو لکھتے ہیں کہ ’تنیجا نے بریفنگ میں کہا اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ آپ کی ترجیح زمین پر کھڑے دشمن کے جہازوں کو تباہ کرنا ہے۔ دوسری ترجیح ارد گرد کی عمارتوں پر بمباری کرنا ہو گی۔‘
’کم روشنی کی وجہ سے شاید زمین پر دیکھنے میں مُشکل ہو مگر اسے حملے کی ناکامی کی وجہ نہیں سمجھا جائے گا۔ جب تک طیارے ٹیک آف پوائنٹ پر نہ پہنچ جائیں تب تک ریڈیو پر مکمل خاموشی رہے گی اور کوئی بھی پائلٹ کسی دوسرے سے بات نہیں کرے گا۔ رن وے کی لائٹس صرف اس وقت آن کی جائیں گی جب جہاز کا انجن سٹارٹ ہو گا۔ تمام طیارے 30 سیکنڈ کے وقفے سے ٹیک آف کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ کہ ہم 5 بج کر 28 منٹ پر ٹیک آف کریں گے اور ریڈار کی آنکھوں سے اوجھل رہنے کے لیے 300 میٹر کر بلندی پر پرواز کریں گے۔ اس کے بعد ہر جہاز بس 30 منٹ میں سرگودھا پہنچ جائے گا اور 30 سیکنڈ کے وقفے سے بم گرانے کے لیے نیچے کی جانب پرواز کرے گا۔‘
ان پائلٹوں اور کنٹرول ٹاور کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا کیونکہ مکمل طور پر ریڈیو پر خاموشی اختیار رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔
اس دوران میسٹرز طیارے کے دو ریزرو پائلٹوں نے اپنے انجن سٹارٹ کر رکھے تھے اور کسی بھی وقت اڑنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔
طیاروں کے ٹیک آف ہوتے ہی مسائل کا آغاز ہوا۔ دوسری کھیپ کے دو طیاروں میں ٹیک آف کے فوراً بعد تکنیکی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ طیارے کے تیسرے بیچ میں بھی ’تکنیکی خرابی‘ تھی۔
پھر اس کی جگہ سکواڈرن لیڈر دیوایا کو جو ریزرو میسٹر کے ساتھ تیار کھڑے تھے میدان میں اُترنے کا کہا گیا۔
پی وی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا لکھتے ہیں کہ ’گرجتے ہوئے مِسٹرز نے سرگودھا ایئربیس پر حملہ کیا۔ نیچے سے طیارہ شکن بندوقوں نے گولی چلائی۔ اس حملے کا مقرر کردہ وقت یعنی صبح پانچ بج کر 58 منٹ سے 3 منٹ پہلے تھا۔‘
’تنیجا اور ان کے ونگ مین ورما نے سرگودھا ایئربیس کی جانب پہی پرواز کی۔ ایک بڑے چار انجن والے طیارے کو کھڑا دیکھ کر انھوں نے اسے راکٹوں سے نشانہ بنایا اور اسے تباہ کر دیا۔ اس کے بعد جب دوبارہ فضا میں بلند ہوئے تو اسی دوران انھیں ایک سٹار فائٹر اور تین سیبر جیٹ طیارے نظر آئے۔‘
’انھوں نے ریڈیو کی خاموشی کو توڑا اور ایک دوسرے گروپ کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ لیکن روشنی اتنی کم تھی کہ ستور طیاروں کو نہیں دیکھ پائے۔ مگر انھوں نے اسی علاقے میں اور مقامات پر حملہ کیا۔‘
جیسے ہی تنیجا حملہ کرنے کے بعد اپنے اڈے کی طرف لوٹے تو ریزرو پائلٹ دیوایا کا طیارہ وہاں پہنچ گیا۔
دریں اثنا پاکستان کے ساکیسر ریڈار سٹیشن نے پاکستان فضائیہ کے سٹار فائٹرز کو انڈیا کی جانب سے حملے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
جب فلائٹ لیفٹیننٹ امجد حسین (بعد میں ایئر وائس مارشل) ایف-104 موقع پر پہنچے میسٹر پہلے ہی اپنی باری لے چکے تھے۔ دیوایا پیچھے تھے۔ امجد کی نظر پہلے ان پر پڑی۔
ان دونوں پائلٹوں کے درمیان فضائی جنگ کو ایئر کموڈور قیصر طفیل نے اپنی کتاب ’گریٹ ایئر بیٹلز آف دی پاکستان ایئر فورس‘ اور جان فریکر نے اپنی کتاب ’بیٹل فار پاکستان: ایئر وار آف 1965‘ میں بیان کیا ہے۔
ونگ کمانڈر ارجیت گھوش اپنی کتاب ’ایئر واریئرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’فلائٹ لیفٹیننٹ امجد حسین ایک ایف-104 سٹار فائٹر اڑا رہے تھے جو آواز کی رفتار سے دوگنی پرواز کر رہا تھا۔ ان کا طیارہ ہیٹ ٹریپ کرنے والے دو سائیڈ ونڈر میزائلوں سے لیس تھا۔ انھوں نے اپنے طیارے کو سکواڈرن لیڈر دیوایا کے طیارے کے پیچھے لگا دیا۔‘
’انھوں نے اپنا سائیڈ ونڈر میزائل فائر کیا جو ہدف سے چوک گیا اور زمین پر گر گیا۔ امجد نے پھر اپنی 20 ایم ایم کی توپ چلائی جس کے گولے دیوایا کے طیارے کو لگے۔ امجد یہ سوچ کر ڈاگ فائٹ سے باہر نکل آئے کہ اب دیوایا کے طیارے کو کریش ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔‘
اریجیت گھوش نے لکھا ہے کہ ’لیکن دیوایا کا طیارہ خراب ہونے کے باوجود لڑنے کے قابل تھا۔ دیوایا کے پاس دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ سٹار فائٹر سے سر جوڑ کر لڑ سکتے تھے جس میں اگر وہ بچ جاتے تو ان کے پاس اتنا ایندھن نہیں ہوتا کہ وہ انڈیا واپس جا سکیں اور دوسرا یہ کہ وہ سٹار فائٹر سے بچ کر اپنے اڈے پر واپس پہنچیں۔‘
’انھیں پہلے سے ہدایات تھیں کہ وہ صرف ائیر بیس کو نشانہ بنائیں گے اور بحفاظت واپس لوٹیں تاکہ وہ اپنے ہدف پر دوبارہ حملہ کر سکیں۔ لیکن دیوایا ایک مختلف مٹی سے بنے انسان تھے۔۔۔ دشمن سے لڑنا ان کے خون میں شامل تھا۔ انھوں نے سٹار فائٹر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
انھوں نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ سٹار فائٹر ان کے طیارے سے بہتر طیارہ ہے۔
اس جنگ کو بیان کرتے ہوئے پی وی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا لکھتے ہیں کہ ’دیوایا ایک بار پھر سٹار فائٹر کے پیچھے آئے۔ اسی دوران امجد سوچ رہے تھے کہ ایک اور میسٹر نے اُن کے ہوائی جہاز کا پیچھا کرنا شروع کر دیا ہے۔‘
’خود کو حملے کے لیے جگہ دینے کے لیے وہ پہلے 7000 فٹ کی بلندی پر گئے اور پھر تیزی سے نیچے زمین کی جانب غوطہ لگایا۔ جب وہ میسٹر کے پیچھے جانے کی کوشش کر ہے تھے انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک بہت ہی دلیر پائلٹ کے ساتھ نبردآزما ہیں۔ لڑائی جاری رہی اور امجد نے میسٹر سے چھٹکارا پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔‘
دیوایا نے ڈیفا توپ سے سٹار فائٹر پر حملہ کیا
یہاں امجد نے غلطی کی۔ انھوں نے میسٹر کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے طیارے کی رفتار کم کردی۔
ایان کارڈوزو لکھتے ہیں کہ ’اگرچہ سٹار فائٹر برصغیر پاک و ہند پر اڑنے والا سب سے تیز ترین طیارہ تھا، لیکن ڈاگ فائٹ میں اس کے مڑنے کی صلاحیت محدود تھی۔‘
’دیوایا نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے سٹار فائٹر کو نشانہ بنایا اور اس پر اپنی دیفنا 2x30ایم ایم توپ سے فائرنگ کی۔‘
’اس حملے کے بعد امجد کے پاس سوائے اس کے کہ وہ پیرا شوٹ کی مدد لیتے کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ 1965 کی جنگ میں یہ پہلا موقع تھا کہ سٹار فائٹر میچ 2 طیارہ فضائی جنگ میں تباہ ہوا۔‘
دوسری جانب تحصیل پنڈی بھٹیاں سے پانچ میل جنوب میں واقع گاؤں کوٹ ناکہ کے کسان کھیتوں میں کام کا آغاز کر رہے تھے کہ انھیں سرگودھا سے دو طیارے آتے ہوئے نظر آئے۔
وہ ان دونوں لڑاکا طیاروں کے درمیان لڑائی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پھر انھوں نے فضا سے ان دونوں طیاروں کو زمین پر یوں گرتے دیکھا کہ جیسے کسی درخت سے دو پتے زمین پر آگرے ہوں۔
ایک طیارے کا پائلٹ پیراشوٹ کی مدد سے نیچے آیا لیکن دوسرا طیارہ نہر کے پار گر گیا اور اس کا پائلٹ باہر نہ نکل سکا۔
پائلٹ کی لاش طیارے کے ملبے سے تھوڑی دور گر گئی مگر اس لاش کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔
بعد میں گاؤں والوں نے انھیں کھیتوں میں دفن کر دیا۔ یہ لاش سکواڈرن لیڈر ٹبی دیوایا کی تھی۔
یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ دیوایا کے ساتھ ان کے آخری لمحات میں کیا ہوا تھا۔
ارجیت گھوش اپنی کتاب ’ایئر واریئرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ممکن ہے کہ دیوایا ہوائی جہاز اڑاتے ہوئے بیہوش ہو گئے ہوں اور فضا میں ہی اُن کی موت ہو گئی ہو۔‘
’یہ بھی ممکن ہے کہ آخری وقت میں انھیں نے جہاز پر کنٹرول کھو دیا ہو اور وہ زمین سے ٹکرا گئے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے جہاز سے نکلنے کی کوشش تو کی ہو مگر وہ جہاز کی بلندی کم ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے میں ناکام رہے ہوں۔‘
دریں اثنا آدام پور میں تنیجا دیوایا کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ مشن کی ڈیبریف میٹنگ میں شرکت کر سکیں۔
تنیجا اور ان کی ٹیم کو ٹبی دیوایا کے ایکشن کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا۔ جب ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی تو دیوایا کو ’جنگ میں لاپتہ‘ قرار دیا گیا۔
جب سات سال گزرنے کے بعد بھی ان کی کوئی خبر نہ ملی تو اس کے بعد انھیں مُردہ قرار دے دیا گیا۔
دیوایا کے کارناموں کا انکشاف ایک برطانوی صحافی کی کتاب میں
اگر برطانوی صحافی جان فریکر نے 1979 میں کتاب ’بیٹل فار پاکستان دی ایئر وار آف 1965‘ نہ لکھی ہوتی تو کسی کو سکواڈرن لیڈر دیوایا کے کارناموں کا علم نہ ہوتا۔ اس کتاب میں سرگودھا کے آسمانوں پر ہونے والی لڑائی کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔
سنہ 1980 میں کتاب کے شائع ہونے کے ایک سال بعد اور جنگ ختم ہونے کے 15 سال بعد گروپ کیپٹن تنیجا نے جان فریکر کا بیان پڑھا جس میں خود امجد حسین نے اعتراف کیا کہ اُن کے جہاز کو 7 ستمبر 1965 کو سرگودھا کے قریب ایک ’دوسرے‘ انڈین میسٹر نے نشانہ بنایا تھا اور اُن کا جہاز تباہ کر دیا تھا۔
ایان کارڈوزو لکھتے ہیں کہ ’تنیجا اچھی طرح جانتے تھے کہ اس دن کسی اور انڈین طیارے کی سٹار فائٹر کے ساتھ جنگ نہیں ہوئی تھی۔ تاہم ایسے میں صرف دیوایا اپنا طیارہ خراب ہونے کے باوجود امجد کے طیارے سے لڑتے رہے۔‘
’وہ باہر نکلنے سے قاصر تھے کیونکہ ان کا طیارہ سٹار فائٹر کی گولیوں سے تقریباً تباہ ہو چکا تھا۔ اس حملے میں شامل ہر پائلٹ سوائے دیوایا کے بحفاظت واپس آیا اور ان میں سے کسی کا بھی کسی سٹار فائٹر سے سامنا نہیں ہوا۔ اس لیے تنیجا کو معلوم تھا کہ دیوایا کے علاوہ کسی پائلٹ کا سامنا سٹار فائٹر سے نہیں ہوا۔‘
گروپ کیپٹن او پی تنیجا نے اس وقت کے انڈین فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل ادریس لطیف کو ایک خط لکھا تھا جس میں سکواڈرن لیڈر دیوایا کو بعد از مرگ مہاویر چکر دینے کی درخواست کی۔
1987 میں ایئر کموڈور پریتم سنگھ، سابق نیٹ ایئر کرافٹ پائلٹ اور ڈیفنس ہسٹوریکل سیل کے سربراہ نے اس کیس کی دوبارہ تحقیق کی۔
ان کی رپورٹ کی بنیاد پر سکواڈرن لیڈر ٹبی دیوایا کو مہاویر چکر سے نوازنے کا اعلان ان کی موت کے 23 سال بعد 23 اپریل 1988 کو کیا گیا۔
دیوایا کی بیوہ سندری دیوایا نے یہ اعزاز اس وقت کے صدر آر وینکٹرمن سے وصول کیا۔
پاکستان فضائیہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سرگودھا پر ہونے والی اس مشہور جنگ نے کئی دہائیوں سے تاریخ دانوں کو حیران کر رکھا ہے۔ جنگ کے فوراً بعد فلائٹ لیفٹیننٹ امجد حسین کو بھی ان کی بہادری پر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سنہ 1971 کی جنگ میں امجد حسین کا طیارہ امرتسر کے اوپر انڈین طیارہ شکن توپوں نے مار گرایا تھا۔
اس جنگ کی مزید تفصیلات ائیر فورس ہیڈ کوارٹر میں پوچھ گچھ کے دوران سامنے آئیں۔
آج بھی دیوایا کی قبر پاکستان میں ایک کسان کے کھیت کے ایک کونے میں موجود ہے۔
اس پورے واقعہ پر بالی ووڈ میں ایک فلم بنائی گئی ہے جس کا نام ’سکائی فورس‘ ہے جس میں اداکار ویر پہاڑیا نے سکواڈرن لیڈر دیوایا کا کردار ادا کیا ہے۔
جب انڈین جنگی جہاز پاکستان میں اتر گیاجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاوہ سڑک جس کی وجہ سے انڈیا پاکستان کے درمیان 65 کی جنگ چھڑی1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین1965 کی جنگ میں ’جب پاکستان فضائیہ کی بمباری سے ڈر کر انڈین کمانڈر کھیتوں میں چھپ گئے‘آپریشن جبرالٹر جس کے ایک ماہ بعد انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا