Getty Images
چین کے مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ ڈیپ سیک نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کیا ہے مگر چین پر نظر رکھنے والوں کے لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔
گذشتہ 10 سال سے چین نے آہستہ آستہ مصنوعی ذہانت سمیت ہائی ٹیک پیداوار میں اپنی مہارت میں اضافہ کیا جو اس کے ’میڈ اِن چائنہ 2025‘ منصوبے کا حصہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ڈیپ سیک اس کی مثال ہے کہ یہ ایک کامیاب منصوبہ ثابت ہوا ہے۔ چینی حکومت نے بڑی شان و شوکت سے سنہ 2015 میں ’میڈ ان چائنہ 2025‘ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ روزمرہ استعمال کر لاکھوں اشیا پر درج اس جملے کو غیر معیاری سمجھنے جانے والے تصور سے عمدہ اور بالادست ٹیکنالوجی کی علامت میں تبدیل کیا جائے۔
’میڈ اِن چائنہ‘ منصوبہ کس حد تک کامیاب رہا؟
10 سال قبل چین نے سنہ 2025 تک ٹیکنالوجی کی 10 صنعتوں کا انتخاب کیا اور ان میں سبقت حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا۔ ان میں مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ، الیکٹرک کاریں، متبادل توانائی اور بیٹری ٹیکنالوجی جیسے شعبے شامل تھے۔
ان میں سے اکثر شعبوں میں چین ایک نمایاں حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور کچھ شعبوں میں تو چین نے بہت ہی مشکل اہداف بھی حاصل کر لیے ہیں۔
کنگز کالج لندن میں ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی ماہر ڈاکٹر یوندن گونگ کا کہنا ہے کہ ’میری رائے میں میڈ ان چائنہ 2025 کا منصوبہ بڑی حد کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کئی شعبوں میں چین اب سبقت حاصل کرنے کی جانب گامزن ہے جبکہ کچھ شعبوں میں چین کو سبقت حاصل ہو چکی ہے۔
Getty Images
چین نے کار کی صنعت میں بھی جرمنی، جاپان اور امریکہ سے برتری حاصل کر لی ہے اور اس وقت وہ کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ کاریں فروخت کر رہا ہے۔ اس میں بی وائے ڈی جیسے کار میکرز کا اہم کردار ہے۔
الیکٹرک کاروں کی کامیابی کا بھی سہرا چین کو ہی جاتا ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بیٹریاں تیار کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کا کہنا ہے کہ اس وقت سولر پینلز کی دنیا میں اندازاً 80 سے 95 فیصد سپلائی چین کر رہا ہے۔
محقیقن کا کہنا ہے کہ چین متبادل توانائی کا پاور ہاؤس ہے اور ان کی یہ بھی پیشگوئی ہے کہ سنہ 2028 تک دنیا کی 69 فیصد متبادل توانائی کی پیداوار چین میں ہو گی۔
ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی چین کا تسلط ہے۔ بی سی سی ریسرچ کے مطابق شینزین میں قائم کمپنی ڈی جے آئی کا عالمی سطح پر 70 فیصد مارکیٹ شیئر ہے۔ اس کے مطابق دنیا کی 10 بہترین ڈرون بنانے والی کمپنیوں میں سے تین چینی ہیں۔
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ایک جامع منصوبے میں 250 سے زیادہ چھوٹے اہداف مقرر کیے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے تجزیے کے مطابق ان میں سے 86 فیصد اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں۔
چین نے اس اصطلاح کا استعمال بند کیوں کیا
جرمن مارشل فنڈ نامی تھنک ٹینک کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور صدر جو بائیڈن کی سابق مشیر لِنڈسے گورمن کا کہنا ہے کہ ’چین نے ریاستی حمایت یافتہ سرمایہ داری کا ماڈل استعمال کر کے کامیابی حاصل کی۔ چینی حکومت تحقیق اور فنڈنگ کا ایجنڈا طے کرتی ہے۔‘
لنڈسے گورمن نے بتایا کہ چین میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر اور غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کرے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ چینی کمپنیوں کے ساتھ مل کر جوائنٹ وینچر شروع کریں۔
چین نے ان اہداف کے حصول کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔
جب ملا عمر نے چینی سفیر کی جانب سے تحفے میں دیا گیا چینی مٹی سے بنا اونٹ کا مجسمہ توڑاالیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ڈیپ سیک اور چین کے ’ہیرو‘: ایک غیر معروف کمپنی نے پابندیوں کے باوجود اے آئی پر امریکی بالادستی کو کیسے ختم کیادنیا کے امیر ترین شخص، مقبول یوٹیوبر یا کوئی اور، امریکہ میں ٹک ٹاک کون خرید سکتا ہے؟
امریکی کانگریس کی تحقیق کے مطابق چینی حکومت نے تحقیق، ترقی یا غیر ملکی کمپنیوں کو خریدنے کے لیے گرانٹس پر 1.5 ٹریلین ڈالر جمع کرنے یا خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2020 تک 627 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔
’میڈ اِن چائنہ 2025‘ کا منصوبہ اتنا کامیاب ہوا کہ صرف چند سالوں کے بعد ہی حکومت نے اس اصطلاح کا استعمال بند کر دیا کیونکہ اس سے حریف چِڑ رہے تھے۔
لیکن ایسا کرنے میں بہت دیر ہو چکی تھی اور حالیہ برسوں میں بہت سے مغربی ممالک نے چین پر اپنی ٹیکنالوجی کی برآمد پر پابندیاں تیز کر دیں۔
ان پابندیوں کا مقصد مائیکرو چِپ کے ذریعے دنیا میں جدت لانے جیسے کچھ منصوبوں کی رفتار کو سست کرنا تھا۔
CFOTO/Future Publishing via Getty Images
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کچھ شعبوں میں اس طرح کی پابندیوں نے چین کو مزید آگے بڑھنے پر راغب کیا۔ خود انحصاری ہی تو ’میڈ ان چائنہ 2025‘ منصوبہ شروع کرنے کی وجہ تھی۔
کارڈیف یونیورسٹی بزنس سکول کی اپلائیڈ اکنامکس کی پروفیسر پینگ زو کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانی چینی کہاوت ہے کہ ’زندگی ہمیشہ اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ رکاوٹوں اور پابندیوں سے صرف جڑیں تبدیل ہوتی ہیں، اس کی سمت پر اثر نہیں پڑتا۔ پروفیسر پینگ زو جیسے ماہرین اس کی بہترین مثال ڈیپ سیک کو قرار دیتے ہیں۔
امریکہ سے برآمدی کنٹرول کی وجہ سے چین زیادہ طاقتور چپس نہ حاصل کر سکا مگر اس کے باوجود اس نے بہت کم قیمت میں بہت ہی موثر چیٹ بوٹ متعارف کرایا۔
کچھ حریف کمپنیاں چین کے ان دعوؤں پر یقین نہیں کرتیں مگر ڈیپ سیک کی دریافت نے تو امریکہ کو بڑا دھچکہ دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ملک کی مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنیوں کے لیے ’ویک اپ کال‘ قرار دیا ہے۔
امریکہ یا چین، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کون آگے؟
مگر اس سب کے باوجود ابھی بھی امریکہ دنیا میں مصنوعی ذہانت میں آگے ہے اور ’میڈ ان چائنہ 2025‘ اس سے اتنا آگے نہیں نکلا۔
اب چین کی مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں کسی بھی ملک سے زیادہ ’پیٹنٹس‘ تیار کر رہی ہیں اور چین کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں علی بابا اور بائیٹ ڈانس تقریباً گوگل اور اوپن اے آئی جتنی رقم اپنی اشیا کی پیداوار پر خرچ کر رہی ہیں۔
کوانٹم کمپیوٹنگ کے زیادہ تر شعبوں میں امریکہ آگے ہے۔ اس کے باوجود کہ چینی سائنس دانوں کی طرف سے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سالانہ کوانٹم سے متعلق زیادہ تحقیقی مقالے شائع کیے جاتے ہیں۔
امریکہ بھی چینی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرکاری اور نجی رقم مائیکرو چپ مینوفیکچرنگ اور سائنس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے میں خرچ کی جا رہی ہے۔
چین کے لیے ایک اور ممکنہ چیلنج قومی سلامتی سے متعلق خدشات سے نمٹنا ہے۔
دنیا بھر میں مرکزی دھارے میں آنے والے پہلے غیر امریکی سوشل نیٹ ورک کے طور پر ٹک ٹاک کی کامیابی کو اب امریکہ سے خطرہ لاحق ہے جو اس پلیٹ فارم کو قومی سلامتی کے پیرائے میں شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس پر جاسوسی جیسے خدشات کا اظہار کر رہا ہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر اس پلیٹ فارم پر پابندی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
ڈیپ سیک کے ساتھ ساتھ ٹیمو اور شین جیسی چینی ای کامرس ایپس کا عروج بھی خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔
تاہم آپ کو یہ دیکھنے کے لیے صرف چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کو دیکھنا ہوگا کہ مغرب کے علاوہ بھی کامیابی کا تصور پایا جاتا ہے۔ سنہ 2019 میں پیدا ہونے والے قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے جب کمپنی کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت یہ کمپنی فائیو جی آلات اور موبائل فون بنانے میں برتری حاصل کر رہی تھی۔
اس کمپنی نے اب اپنی توجہ دنیا کے دوسرے حصوں کی طرف مرکوز کر دی ہے۔ یہ کمپنی اپنی مائیکرو چپس بنا رہی ہے اور 100 ملین ڈالر کی شاندار آمدن کما رہی ہے۔
بظاہر ہواوے نے مغربی ممالک کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کا طوق اتار پھینکا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟جب ملا عمر نے چینی سفیر کی جانب سے تحفے میں دیا گیا چینی مٹی سے بنا اونٹ کا مجسمہ توڑاچین زمین میں 11 کلومیٹر گہرا گڑھا کیوں کھود رہا ہے؟ٹرمپ، الیکٹرک گاڑیاں اور ٹیکنالوجی وار: 2025 میں چین کو پانچ بڑے چیلنجز کا سامناڈیپ سیک اور چین کے ’ہیرو‘: ایک غیر معروف کمپنی نے پابندیوں کے باوجود اے آئی پر امریکی بالادستی کو کیسے ختم کیا