دیویا بھارتی جنھوں نے شاہ رخ خان کا نام ’دیوانہ‘ رکھ دیا

اردو نیوز  |  Feb 25, 2025

وہ ہمہ وقت جلدی میں رہتی تھیں۔ 16 برس کی عمر میں فلموں میں آئیں اور صرف تین برس بعد اُس کی پراسرار موت نے بالی وُڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ فلم ’دیوانہ‘ کی ’کاجل‘ یعنی دیویا بھارتی کی کہانی ہے، جو آج اگر زندہ ہوتیں تو یہ اُن کا 51 واں جنم دن ہوتا۔

دیویا اُس وقت نویں جماعت میں زیرِتعلیم تھیں جب کرتی کمار (اداکار گووندا کے بھائی اور پروڈیوسر)  نے اُن کو اپنی فلم ’رادھا کا سنگم‘ میں کاسٹ کرنے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے رقص اور اداکاری سیکھنے کے لیے سکول جانا چھوڑ دیا۔

مسئلہ یہ ہوا کہ کرتی کمار اپنی آنے والی فلم کی ہیروئن کو دنیا سے چھپا کر رکھنا چاہتے تھے مگر زندگی سے بھرپور دیویا دوستوں کے ساتھ ہلا گلا کرنا اور لانگ ڈرائیو پر جانا پسند کرتیں۔ اُن کی اِس عادات سے کرتی پریشان ہوگئے جنہوں نے فلم میں اُن کی جگہ جوہی چاؤلہ کو کاسٹ کر لیا۔

اُن دنوں ہی پروڈیوسر بونی کپور اپنی فلم ’پریم‘ کے لیے کسی نئے چہرے کی تلاش میں تھے تو انہوں نے دیویا کو کاسٹ کرنے میں دلچسپی ظاہر کی، مگر بات بن نہ سکی اور تبو کو فلم میں کاسٹ کر لیا گیا۔ سبھاش گھئی بھی اُن دنوں اپنی فلم ’سوداگر‘ بنا رہے تھے جس میں وہ دیویا کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے مگر یہ کردار منیشا کوئرالہ کو مل گیا تو بارہا رَد کیے جانے پر دیویا پریشان ہو گئیں۔

چناںچہ اُن کی والدہ اُن کو اپنے ساتھ کشمیر لے گئیں مگر اس دوران ہی اُن سے ساؤتھ کے ایک پروڈیوسر ڈی راما نائیڈو نے رابطہ کیا اور یوں وہ چھٹیاں ادھوری چھوڑ کر واپس آ گئیں۔ 

اداکارہ کی والدہ میتا بھارتی نے اس بارے میں فلم فیئر میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’دیویا کی (فلموں میں) دلچسپی قریباً ختم ہو چکی تھی۔ وہ کہانی سنائے جانے کے دوران بھی جھپکیاں لیتی رہی۔ راما نائیڈو نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم اسی شام ان کے ساتھ حیدرآباد کے لیے روانہ ہو سکتے ہیں۔ دیویا محض دل بہلانے کے لیے تیار ہو گئی۔‘

یوں اُن کی پہلی فلم تیلگو زبان کی ’بوبلی راجا‘ تھی جو سال 1990 میں ریلیز ہوئی اور سپرہٹ رہی جس کے بعد اداکارہ نے تیلگو اور تامل زبان کی کچھ مزید کامیاب فلموں میں کام کیا۔ ساؤتھ کی فلم انڈسٹری میں اس کامیابی کے بعد اب بالی وُڈ کے ہدایت کاروں کے لیے دیویا بھارتی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔

اداکارہ کو اُن دنوں ہی بالی وڈ ہدایت کار راجیو رائے نے فلم ’وشوآتما‘ کے لیے کاسٹ کر لیا۔ یہ اُن کی ہندی زبان میں پہلی فلم تھی جس میں نصیرالدین شاہ اور سنی دیول جیسے اداکار بڑے پردے پر نظر آئے۔ یہ فلم تو اوسط درجے کا ہی کاروبار کر سکی مگر دیویا کی اداکاری کو ناقدین کی جانب سے سراہا گیا اور اس فلم کا اداکارہ پر پکچرائز ہوا گیت،

’سات سمندر پار

میں تیرے پیچھے پیچھے آگئی‘

تو زبردست کامیاب رہا۔ اُن کی اسی برس ایک اور قابلِ ذکر فلم ’شعلہ اور شبنم‘ تھی جسے نہ صرف ناقدین کی جانب سے سراہا گیا بلکہ یہ باکس آفس پر بھی کامیاب رہی۔

فلم ’دیوانہ‘ میں دیویا بھارتی کے ساتھ اداکار شاہ رُخ خان نے ڈیبیو کیا تھا (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)میتا بھارتی نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’وہ کامیابی کا مزہ چکھنے کے بعد بھی نہیں بدلی۔ اُسے کبھی چمک دمک میں کشش محسوس نہیں ہوئی۔ وہ شوٹنگ کے بعد عام طور پر ٹائٹس اور ٹی شرٹ زیبِ تن کر لیتی۔ عائشہ جھلکا اور پوجا بھٹ نے اگرچہ اس کے ساتھ ہی فلمی دنیا میں قدم رکھا، مگر اُس کا شمار سری دیوی اور مادھوری ڈکشٹ ایسی کامیاب اداکاراؤں کی فہرست میں ہونے لگا تھا۔ اگرچہ اس کی شباہت سری دیوی سے ملتی تھی لیکن اُس نے کبھی اُن کی نقل نہیں کی۔‘

راج کنور کی فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرنے والی فلم ’دیوانہ‘ کی ریلیز کے بعد تو دیویا کا شمار بالی وڈ کی صفِ اول کی اداکاراؤں میں ہونے لگا۔ اس فلم میں اُن کے ساتھ اداکار شاہ رُخ خان نے ڈیبیو کیا تھا۔ یہ سال 1992 کی کامیاب ترین فلم رہی جس میں دیویا کی اداکاری کو بے پناہ سراہا گیا۔

ناقدین نے درست طور پر یہ کہا کہ وہ ہندی فلم کی اُن نئی اداکاراؤں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے روایتی کردار ادا کرنے سے انحراف کیا ہے۔ اس فلم پر دیویا کو نئی اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔

دیویا کی سال 1992 میں 12 ہندی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے دو فلمیں تو اُن کی شاہ رُخ خان کے ساتھ ہیں۔ فلم ’دیوانہ‘ کا ذکر تو ہو چکا، اُن کی دوسری فلم ’دل آشنا ہے‘ تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شاہ رُخ خان کا اس فلم کے ذریعے ڈیبیو ہونا تھا مگر چوں کہ ’دیوانہ‘ پہلے ریلیز ہو گئی تو یوں یہ اُن کی ڈیبیو فلم قرار پائی۔

شاہ رخ خان نے این ڈی ٹی وی کو دیے گئے اپنے ایک پرانے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ دیویا بھارتی بطور اداکارہ حیرت انگیز تھی۔ وہ بالکل بھی عام اداکاراؤں جیسی نہیں تھی جیسے میں خود کو سمجھتا تھا۔ میں ایک سنجیدہ قسم کا آدمی تھا جب کہ وہ ایک شوخ، زندگی سے بھرپور اور مزاحیہ طبیعت کی مالک تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں سی راک ہوٹل میں ڈبنگ مکمل کر چکا تھا۔ میں نے ’دیوانہ‘ کے لیے ڈبنگ کی تھی جیسے ہی میں سی راک سے باہر نکلا، میں نے اسے دیکھا اور سلام کیا۔ اس نے مجھے دیکھا اور کہا، ‘تم صرف ایک اداکار نہیں ہو، تم ایک ادارہ ہو۔‘

’یہ سن کر میں بے حد متاثر ہوا۔ میں نے دل میں کہا، واہ! لیکن چوں کہ میں اس جملے کا مفہوم پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا، تو فوراً جا کر اس کا مطلب تلاش کیا۔ تب مجھ پر ادراک ہوا کہ یہ کتنی بڑی بات تھی۔‘

شاہ رُخ اور دیویا فلم کے سیٹ پر بچوں کی طرح شرارتیں کیا کرتے، ایک دوسرے سے مذاق کرتے اور خوب لطف اندوز ہوتے۔ دیویا کی والدہ میتا نے کہا تھا کہ ’اُس (دیویا) نے ایک دن ’دیوانہ‘ کے سیٹ پر شاہ رُخ کو ناخن مار دیا۔ اس کے بعد شاہ رُخ کے سیکریٹری نے فون کر کے کہا کہ وہ اُن کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔ لیکن شاہ رُخ نے ازاں بعد کہا، ’میں نے یہ صرف اُسے ڈرانے کے لیے تھا۔ وہ ابھی بچی ہی تو ہے۔‘

 اداکار سنیل شیٹھی کی ڈیبیو فلم ’بلوان‘ بھی دیویا کے ساتھ ہی تھی (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اداکار سنیل شیٹھی کی ڈیبیو فلم ’بلوان‘ بھی دیویا کے ساتھ ہی تھی۔ یوں بالی وڈ کے دو بڑے ناموں شاہ رُخ خان اور سنیل شیٹھی نے دیویا بھارتی کے مدِمقابل اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔

وہ جلد ہی بالی وڈ کا جانا پہچانا چہرہ بن گئیں تو اُن کے مداح اُن سے آٹوگراف لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوتے مگر اُن کا پہلا آٹوگراف دینے کی کہانی بہت دلچسپپ ہے۔

اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ ’ایک پرانی ویڈیو میں، جو ایک فین پیج نے انسٹاگرام پر شیئر کی، دیویا بھارتی سے ان کے پہلے آٹوگراف دینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ’ہاں، بہت اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے آٹوگراف دیا تو میری ماں نے کہا، ’ارے، پہلا آٹوگراف دے رہی ہو، لڑکی کا نام تو پوچھو۔‘

وہ ایک سکول جانے والی بچی تھی، مجھ سے بھی چھوٹی۔ میں اگر 14 سال کی تھی تو وہ شاید 10 سال کی رہی ہوگی۔ تو میں نے کہا، ’ادھر آؤ، ادھر آؤ، تمہارا نام کیا ہے؟‘ لیکن اس نے مجھ پر اچٹتی سی نگاہ نگالی (آنکھیں گھماتے ہوئے) اور چلی گئی۔ کھڑے کھڑے میری بےعزتی ہوگئی۔‘ دیویا نے ہنستے ہوئے کہا۔‘

فلم ’شعلہ اور شبنم‘ کے سیٹ پر اداکارہ کی ساجد ناڈیاڈوالا سے پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ اداکارہ کی دوسری فلم تھی تو ساجد بھی فی الحال ایک پروڈیوسر کے طور پر اپنی پہچان بنانے کی سعی کر رہے تھے۔ اس فلم میں گووندا بھی کام کر رہے تھے تو ساجد اکثر اُن سے ملاقات کے لیے آتے۔ وہ اسی دوران دیویا میں دلچسپی لینے لگے اور اُن کو دیکھنے کے بہانے بہانے سے سیٹ پر آنے لگے۔

دونوں میں بات چیت شروع ہوئی جو جلد ہی محبت میں بدل گئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اُس وقت دیویا ابھی 18 برس کی نہیں ہوئی تھیں تو ان دونوں نے کچھ انتظار کیا اور جب دیویا 18 برس کی ہو گئیں تو دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ دیویا شادی کے بعد مسلمان ہو گئی تھیں اور انہوں نے اپنا نام تبدیل کر کے ثنا ناڈیاڈوالا رکھ لیا تھا۔

اُن دونوں نے یہ شادی خفیہ رکھی کیوںکہ یہ دیویا کے کیریئر کی شروعات کا زمانہ تھا مگر دیویا کے خاندان والے اُن دونوں کی شادی کے بارے میں جانتے تھے۔ دیویا کی والدہ میتا بھارتی نے فلم فیئر میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مجھے معلوم تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ جوانی تو بہتے پانی کی طرح ہوتی ہے۔ میں اسے کبھی روک نہیں سکتی تھی۔ میں نے اس کا ساتھ دیا تاکہ وہ مجھ پر بھروسہ کرتی رہے اور کسی اور سمت نہ چلی جائے۔‘

’ان کے درمیان جھگڑے ہوتے ہوں گے۔ ساجد اور دیویا صرف آٹھ ماہ ہی ایک ساتھ رہے۔ ان کے پاس زندگی سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہی کہاں تھا؟‘

 جب دیویا 18 برس کی ہو گئیں تو ساجد ناڈیاڈوالا کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں (فوٹو: اے بی پی نیوز)انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’اُس کے کوئی بہت بڑے خواب نہیں تھے۔ اس کی زندگی کا مقصد بس شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا تھا۔ وہ مذاق میں کہا کرتی تھی، ’میں اپنے بچوں کو آپ کی گود میں ڈال کر کام پر چلی جایا کروں گی۔‘

یہ 5 اپریل 1993 کا ایک اُداس دن تھا جب دیویا ممبئی کے علاقے ورسوا میں پانچویں منزل پر ساجد ناڈیاڈوالا کے اپارٹمنٹ کی بالکونی سے گر کر چل بسیں۔

اُس وقت اُن کی عمر صرف 19 برس تھی اور انہوں نے اپنی موت سے قبل 1992-93 میں 14 ہندی فلموں میں کام کیا تھا جو اب تک ایک ریکارڈ ہے۔

دیویا کی موت کے بعد بہت سے سازشی نظریات گردش کرنے لگے جن پر اب بھی بات ہوتی ہے کہ وہ پانچ اپریل کو بالکونی سے واقعتاً حادثاتی طور پر گریں یا وجہ کچھ اور تھی؟

میتا بھارتی نے اُس دن کی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں اپنے بھائی کے گھر گئی ہوئی تھی جہاں سے تاش کھیلنے چلی گئی۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ مدراس سے ممبئی واپس آ چکی ہے۔ کہتے ہیں موت کھینچ لاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’اس دن اس نے بیوٹی ٹریٹمنٹ کروایا تھا اور پھر میرے شوہر اوم جی اور بیٹے کنال کے ساتھ باندرا میں ایک اپارٹمنٹ دیکھنے چلی گئی۔ اسے بتایا گیا کہ جب تم ماریشس سے واپس آؤ گی، تو اپارٹمنٹ کی چابیاں مل جائیں گی۔‘ یہ سنتے ہی وہ سڑک پر ناچنے لگی۔ وہ یہ گھر خاص طور پر دوستوں کے ساتھ محفلیں سجانے اور پارٹیاں کرنے کے لیے لینا چاہتی تھی۔‘

’شام اس نے پلی ہل میں اپنے پرانے پڑوسیوں کے ساتھ ہنسی خوشی گزاری۔ اسی دوران ساجد کا فون آیا کہ نیتا لُلا (کاسٹیوم ڈیزائنر) گھر آئی ہیں اور ملبوسات پر بات کرنی ہے۔ دیویا فوراً نکل گئی۔ کنال نے اسے ساجد کے گھر تلسی اپارٹمنٹس ورسوا چھوڑا۔ کنال ابھی گھر واپس پہنچا ہی تھا کہ خاندان کو فون آیا کہ دیویا پانچویں منزل سے گر گئی ہے۔‘

دیویا کی موت کو ایک حادثہ مان لیا گیا جب کہ اُن کے خاندان نے بھی ساجد پر کسی قسم کا شک ظاہر نہیں کیا جو اپنی دوسری شادی تک اپنی ہر فلم دیویا کے نام کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے سال 2014 میں ریلیز ہوئی اپنی فلم ’کک‘ میں اداکارہ پر فلمایا گیا گیت ’سات سمندر پار‘ بھی شامل کیا۔

دیویا بھارتی کی موت کو رواں سال اپریل میں 32 سال ہو جائیں گے (فوٹو: کوئی موئی) کچھ لوگوں نے دیویا بھارتی کی اس بے وقت موت کا ذمہ دار ممبئی کے گینگسٹرز کو ٹھہرایا تو کچھ نے اداکارہ کے منشیات کے استعمال پر الزام دھرا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نوعیت کے سازشی نظریوں کی  بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔

دیویا کی موت بالی وُڈ کے لیے بھی کسی دھچکے سے کم نہیں تھی۔ شاہ رُخ خان نے اپنے ایک انٹرویو میں اپنی ساتھی اداکارہ کی موت پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے تھا کہ ’میں سو رہا تھا اور وہ میرا گانا ’ایسی دیوانگی‘ بجا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ میں ایک بڑا سٹار بن گیا ہوں۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک بڑا سٹار کیسے بنا جاتا ہے۔ فلم زبردست ہٹ رہی تھی۔ یہ گانے اچانک چلائے جا رہے تھے، میں جب بیدار ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکی تھی۔ وہ کھڑکی سے گر گئی تھی۔ یہ میرے لیے سب سے بڑے صدموں میں سے ایک تھا کیوں کہ میرا خیال ہے کہ مجھے اس کے ساتھ ایک اور فلم کرنی تھی۔‘

یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دیویا ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ میں سمرن کے کردار کے لیے پروڈیوسر ادتیہ چوپڑہ کا پہلا انتخاب تھیں جب کہ فلم ’ڈر‘ میں بھی اُن کو شامل کیا جانا تھا جو اُن کی موت کی وجہ سے ممکن نہیں ہو سکا۔

دیویا بھارتی نے مختصر مدت میں وہ عروج دیکھا جو بہت سے اداکاروں کی زندگی بھر کی تپسیا پر بھاری ہے، اُن کا شمار اپنے عہد کی مصروف ترین ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکاراؤں میں بھی کیا جاتا تھا۔

دیویا بھارتی کی موت کو رواں سال اپریل میں 32 سال ہو جائیں گے مگر شاید وہ جلدی میں تھیں کہ انہوں نے ہر کام دو تین سال میں مکمل کر کے دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More