Reuters
پاکستان نے سرکاری طور پر 22 فروری 1974 کے دن بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک تسلیم کر لیا تھا۔ اس کے چار ماہ بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تقریبا ایک سو افراد کے وفد کے ہمراہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔
یہ کسی پاکستانی سربراہ مملکت کا سابقہ مشرقی پاکستان اور آزاد بنگلہ دیش کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ صرف دو سال قبل ہی سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش نے انڈیا کی مدد سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لیے یہ ڈھاکہ کا پہلا دورہ نہیں تھا۔ وہ مارچ 1971 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اس وقت ڈھاکہ پہنچے تھے جب حالات مخدوش ہو چکے تھے۔
ان کی ڈھاکہ میں موجودگی کے دوران ہی پاکستان فوج نے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کا آغاز کیا جس میں مبینہ طور پر متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔
26 مارچ کو ڈھاکہ سے کراچی روانگی سے قبل انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا تھا کہ ’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے۔‘ بھٹو کا موقف واضح رہا تھا اور وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے مخالف تھے۔ 1972 میں بھٹو نے پاکستان کو کامن ویلتھ سے اس وقت الگ کر لیا تھا جب برطانیہ نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہی وجہ تھی کہ بھٹو کے دورہ ڈھاکہ پر عوام کا ردعمل ملا جلا تھا اور اس دوران کئی ڈرامائی واقعات رونما ہوئے۔ جس طرح سے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی حکومت نے بھٹو کے استقبال کے لیے حفاطتی انتظامات کیے انھیں اخبارات نے ’غیر معمولی‘ قرار دیا۔
اس کے باوجود ڈھاکہ آمد پر ان کے خلاف مظاہرے ہوئے اور یادگار پر حاضری کے دوران ٹوپی نہ اتارنے پر بھی تنقید ہوئی۔ دوسری جانب اس دورے کی اہم بات یہ تھی کہ بھٹو نے فوجی حکمرانوں پر الزام دھرتے ہوئے 1971 میں بنگلہ دیش کے عام شہریوں پر ہونے والے مبینہ مظالم پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
انھوں نے اسے ایک ’تکلیف دہ وقت‘ قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر بھی زور دیا۔
لیکن معاملات اس وقت بگڑ گئے جب بنگلہ دیش کی جانب سے غیر منقسم پاکستان کے سرکاری وسائل میں سے اپنا حصہ مانگا گیا اور بھٹو نے انکار کر دیا۔ اسی وجہ سے مزاکرات ناکام ہو گئے۔ تو جانتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے دورہ کے دوران ہوا کیا تھا؟
گرمجوشی سے استقبال اور سخت سکیورٹی
ذوالفقار علی بھٹو 27جون کو دن 11 بج کر 30 منٹ پر پی آئی اے کی خصوصی پرواز سے ڈھاکہ پہنچے تو ان کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا۔
شیخ مجیب الرحمان، بنگلہ دیش کے وزیر اعظم، خود ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ جب بھٹو طیارے سے اترے تو 19 توپوں کی سلامی دی گئی اور مجیب الرحمان نے انھیں پھولوں کا ہار پہنایا۔
28 جون کی ایک خبر کے مطابق بھٹو کے استقبال کی نظیر نہیں ملتی۔ دیگر اخباروں نے بھی ان کے دورے کو اہمیت دی۔ روزنامہ اتفاق کی شہ سرخی تھی ’بھٹو کا ڈھاکہ میں گرمجوشی سے استقبال۔‘
اتفاق کی خبر کے مطابق بنگال کی زمین پر بھٹو کا استقبال کرنے والے پہلے شخص مجیب الرحمان تھے جنھوں نے بھٹو کو گلے لگایا۔
بعد میں بنگلہ دیش کی فوج کے دستے نے بھٹو کو سلامی پیش کی اور سفارتی آداب کے مطابق پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا اور قومی ترانہ بھی بجایا گیا۔
مجیب الرحمان کے علاوہ بنگلہ دیش کی اسمبلی کے سپیکر، کابینہ اراکین، فوجی اور سول حکام اور سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ انڈین ہائی کمیشن کے قائم مقام سربراہ جے این ڈکشٹ بھی وہاں تھے۔
سکیورٹی کے انتظامات اتنے سخت تھے کہ صحافیوں کے ایک فاصلے پر رہ کر استقبالیہ تقریب دیکھنا پڑی۔ ایئرپورٹ کے باہر بھی ایک مجمع اکھٹا تھا۔
اخبارات کے مطابق جب بھٹو ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تو سڑک کے دونوں اطراف لوگ موجود تھے لیکن ان میں سے چند نے بھٹو کے خلاف احتجاج بھی کیا۔
بھٹو کے اعزاز میں عشائیہ
27 جون کی رات ہی شیخ مجیب الرحمان نے پاکستانی وزیر اعظم کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔ اس رات دونوں وزرائے اعظم کے خطاب کو اگلے دن اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔ ایک اخبار کی سرخی تھی کہ ’آئیں ایک نئے باب کا آغاز کریں۔‘
اخبار کی خبر کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر اعظم نے پاکستانی وزیر اعظم سے کہا کہ ’نفرت اور تلخیوں کو بھلا کر دونوں ممالک کی عوام کے لیے خوشحالی کے نئے باب کا آغاز کیا جائے۔‘ اس سلسلے میں شیخ مجیب الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان اثاثہ جات کی تقسیم کا معاملہ حل کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی واپسی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 کی جنگ کو تاریخ کا ’شرمناک باب‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ’حکومت اور عوام اس دردناک باب کو ختم کرنا اور دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔‘
یادگار پر ٹوپی نہ اتارنے کا تنازع
دورے کے دوسرے دن وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بنگلہ دیش کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بنگلہ دیش فضائیہ کے ہیلی کاپٹر میں دن دس بجے یادگار پر پہنچے جہاں وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کے پولیٹیکل سیکریٹری طفیل احمد نے ان کا استقبال کیا۔
بھٹو نے یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی جبکہ باہر ان کے خلاف احتجاج جاری تھا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد یادگار سے نکلنے کے خواہش مند تھے جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ انھوں نے اس دوران اپنی ٹوپی نہیں اتاری۔
ڈیلی بنگلہ کی خبر میں لکھا گیا کہ بھٹو جلدی سے نکلنا چاہتے تھے لیکن ایک بنگلہ دیشی پروٹوکول افسر نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ ابھی تقریب ختم نہیں ہوئی۔ پھر فوجی بینڈ نے ایک دھن بجائی اور بنگلہ دیش کا پرچم نیچے کیا گیا۔ اس دوران بھٹو اپنی ٹوپی اتارے بنا ہی کھڑے رہے۔
متعدد خبروں کے مطابق تقریب کے اختتام پر بھٹو یادگار پر موجود کتاب میں اپنا کوئی بیان لکھے بنا ہی ہیلی کاپٹر میں سوار ہو گئے۔
’جب اطلاعات کا بہاؤ رک گیا اور مغربی پاکستان والوں نے کہا، شیخ مجیب غدار ہے‘آرمی چیف کے دفتر سے پاکستانی فوج کے جنرل نیازی کی تصویر ہٹانے پر سابق انڈین فوجی ناراض کیوں17 دسمبر 1971: جب ڈھاکہ سے شائع ہونے والے اخبارات نے اپنے ناموں سے ’پاکستان‘ کا لفظ ہٹایا1971 کی جنگ کے دوران یحییٰ خان کی نور جہاں سے فون پر گانے کی فرمائش اور نجومی کی وہ پیشگوئی جو غلط ثابت ہوئی’ہلاکتوں‘ کا معاملہ اور بھٹو کا موقف
اسی دن بھٹو کے اعزاز میں ایک تقریب تھی جس کے دوران اخباری رپورٹس کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نے پاکستانی فوج کی جانب سے 1971 میں پرتشدد مظالم پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا۔
روزنامہ اتفاق کی خبر کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’ہم سب ظلم کا شکار ہوئے۔ ملک تقسیم ہوا، اتحاد ٹوٹ گیا۔ یہ سچ ہے کہ بہت دیر ہو چکی ہے لیکن ابھی بھی ندامت کا وقت باقی ہے۔‘
بھٹو نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام بنگلہ دیش کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جو کچھ ہوا اس پر دل سے پچھتانے میں اب بھی تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام آپ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ وہ اور حکومتِ پاکستان بنگلہ دیش کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔‘
اس تقریر میں بھٹو نے پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو سنہ 1971 کی نسل کشی اور تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
’طاقت کے بھوکے آمروں کے جرائم اور گناہوں کا ذمہ دار ہمیں مت ٹھہرائیں۔ ہمارا موازنہ ان سے نہ کریں جنھوں نے ہم پر اور آپ حکمرانی کی ہے۔‘
Getty Images
پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ان کا 1971 کے واقعات سے کوئی تعلقات نہیں تھا اور انھوں کبھی فوجی حکومت کے عمل کی حمایت نہیں کی تھی۔
اس تقریر کے دوران ان کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: ’میں بنگلہ دیش کے عوام کے سامنے قسم کھاتا ہوں کہ اس المیے کو روکنے کی میں نے پوری کوشش کی تھی۔‘
جب بھٹو یہ تقریر کر رہے تھے تو اس وقت بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم شیخ مجیب الرحمان، ان کی کابینہ کے اراکین اور ڈھاکہ میں تعینات غیرملکی سفارتکار بھی وہاں موجود تھے۔
اگلے دن اس تقریر کی خبر دینک بنگلہ اخبار نے کچھ یوں دی: ’بھٹو نے خود پر لگے الزامات کی تردید کرنے کی پوری کوشش کی اور اس دوران انھوں نے تاریخ کو بھی مسخ کردیا۔‘
صحافیوں کی بھٹو پر تنقید
اپنے دورے کے آخری روز بھٹو نے ڈھاکہ میں صحافیوں سے ملاقات کی اور اخباری خبروں کے مطابق اس دوران ان پر کڑی تنقید بھی ہوئی تھی۔
اس پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے پاکستانی وزیرِ اعظم سے پوچھا کہ کیا بنگلہ دیش میں نسل کشی میں ملوث پاکستانی فوج اور دیگر سویلین اداروں اہلکاروں کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہوگی؟
جواب میں بھٹو نے کہا کہ وہ انصاف کو یقنی بنائیں گے۔
صحافیوں نے پھر پوچھا کہ اگر بھٹو واقعی نسل کشی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو ’نسل کشی کے ذمہ دار‘ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر کیوں تعینات ہیں؟
بھٹو اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے اور انھوں نے اس معاملے کو پاکستان کا ’اندرونی سیاسی معاملہ‘ قرار دیا تھا۔
بھٹو نے صحافیوں سے مزید سوالات نہ کرنے کی گزارش کی اور کہا کہ ان کے سوالات ’پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ کے مترادف ہیں۔
لیکن صحافیوں کے سوالات جاری رہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اگر بھٹو فوجی حکومت کے حامی نہیں تھے تو وہ 1971 میں یحییٰ حکومت کے ایلچی بن کر چین کیوں گئے اور انھوں نے اقوامِ متحدہ میں بنگلہ یش کے معاملے پر پاکستان میں فوجی حکومت کی حمایت کیوں کی؟
اس کے جواب میں بھٹو نے کہا کہ کوئی بھی ’محبِ وطن‘ شہری پاکستان کو ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور اسی سبب انھوں نے تمام کام کیے۔
بھٹو کے خلاف احتجاج
بنگلہ دیش آمد کے بعد بھٹو کو دو احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پہلا احتحاجی مظاہرہ پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والوں اور ان کے ہاتھوں مرنے والے افراد کے اہلخانہ نے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر کیا۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بھٹو کو واپس پاکستان بھیجا جائے۔
اخباری خبروں کے مطابق اگلے ہی دن جب بھٹو ساوار کے علاقے میں بنگلہ دیش کی قومی یادگار پر پہنچے تو وہاں بھی ہزاروں مظاہرین پہلے ہی سیاہ جھنڈے لیے پہنچے ہوئے تھے۔
یہ مظاہرین بھٹو کو ’قاتل اور قصائی‘ کے ناموں سے پکار رہے تھے۔ ان کے پاس موجود پلے کارڈر پر لکھا تھا کہ ’بھٹو قاتل واپس جاؤ‘ اور ’بنگالی یادگار کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔‘
اس موقع ہر ایک ایسا وقت آیا جب احتجاجی مظاہرین سکیورٹی کا حصار توڑ کر بھٹو کی جانب بڑھنے لگے۔ اس افراتفری کے دوران سکیورٹی اہلکاروں نے لاٹھی چارج کرکے مظاہرین کو منتشر کیا تھا۔
ایک اخبار کی خبر کے مطابق ان جھڑپوں میں متعدد مظاہرین زخمی ہوئے تھے اور گرفتار بھی ہوئے تھے۔
’بھٹو، ہمیں واپس لے چلیں‘
اس وقت کی اخباری خبروں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر بھٹو کا استقبال کرنے والے آنے والوں میں ’بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانی افراد‘ بھی شامل تھے۔
اطلاعات کے مطابق یہ افراد پاکستان واپس جانا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ ملک کے وزیرِ اعظم کو دیکھ کر ’بھٹو، ہمیں واپس لے چلیں‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
اس موقع پر بھی بدنظمی دیکھنے میں آئی اور پولیس کو ان افراد کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ان افراد نے جواب میں پولیس پر پتھر اور اینٹوں سے حملے کیے۔
جب بھٹو بنگلہ دیش کے ایوانِ صدر میں داخل ہوئے تو وہاں بھی باہر پاکستانی شہری موجود تھے۔ ایک بار پھر یہاں سکیورٹی اہلکاروں کو لاٹھی چارج کے ذریعے ان افراد کو منتشر کرنا پڑا۔
مذاکرات میں ناکامی
پاکستانی وزیرِ اعظم کے تین روزہ بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کا مقصد دونوں ممالک کو درپیش مسائل کو حل کرنا اور سفارتی تعلقات بحال کرنا تھا۔
بنگلہ دیش کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کے اثاثے بنگلہ دیش کو بھی دیے جائیں اور بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس اپنے ملک بھیجا جائے۔
جیسے ہی بھٹو بنگلہ دیش پہنچے شیخ مجیب الرحمان نے معاملات پر ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ تاہم بات چیت ناکام رہی اور دونوں ہی رہنما ان مسائل کا حل نہیں تلاش کر سکے۔
بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات پاکستان کے غیرمناست رویے کے سبب ناکام ہوئے۔
’بنگلہ دیش نے ان مسائل کے حل کے لیے پہلے ہی اقدامات لیے ہوئے تھے لیکن پاکستان نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
جب اثاثہ جات اور وسائل کی تقسیم کا معاملہ اُٹھایا گیا تو پاکستان نے ایک مشترکہ کمیٹی بنانے کا مشورہ دیا اور بنگلہ دیش نے اس مشورے سے اتفاق کیا۔
تاہم بنگلہ دیش نے کہا کہ یہ کمیٹی اس بات کا تعین نہیں کرے گی کہ اثاثہ جات اور وسائل بنگلہ دیش کو ملنے چاہییں یا نہیں، بلکہ یہ کمیٹی اس بات کا تعین کرے کے بنگلہ دیش کو کیا کیا اثاثے اور وسائل ملیں گے۔
پاکستان نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ کمیٹی اس بات پر غور کرے گی کہ کیا بنگلہ دیش کو یہ وسائل دینے بھی چاہییں یا نہیں۔
ابتدائی مذاکرات کی ناکامی کے بعد بھٹو نے وعدہ کیا کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے مذاکرات کے لیے تیار رہیں گے۔
بھٹو نے ڈھاکہ چھوڑنے سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان ان معاملات پر ’سمجھوتا‘ کرنے کی کوشش کرے گا۔
بنگلہ دیش کا قیام: ڈھاکہ پر قبضہ کرنا انڈیا کی عسکری منصوبہ بندی کا حصہ ہی نہیں تھا’یہ ہو گیا بنگلہ دیش کا نو مئی‘: ڈھاکہ کے وہ مناظر جنھوں نے لاہور کے جناح ہاؤس کی یاد تازہ کر دیڈھاکہ کی ایک خونیں شب: چار سیاست دانوں کا جیل میں قتل اور ایک فوجی بغاوت کی داستان سنہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے اہم واقعات مغربی پاکستان میں کیسے رپورٹ ہوئے؟’مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا‘ کس نے اور کیوں کہا تھا؟کیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟