’ اختلافات کے باوجود جے یو آئی سے جڑے رہے‘ سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کا انتقال

اردو نیوز  |  Mar 20, 2025

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان، سابق پارلیمنٹرین اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیئر رہنما حافظ حسین احمد 74 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

خاندانی ذرائع کے بقول حافظ حسین احمد گزشتہ دس سالوں سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کا ہفتے میں دو بار ڈئیلاسسز ہوتا تھا۔

انہوں نے حکومت کی پیشکش کے باوجود سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرانے سے انکار کردیا تھا۔

حافظ حسین 14اگست 1951 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع مستونگ کے ایک دینی و سیاسی خانوادے سے تھا۔

ان کے والد مولانا عرض محمد ایک معروف عالم، سیاستدان اور ریاست قلات کے دور میں پارلیمان (دار العوام)کے رکن تھے۔حافظ حسین احمد نے قرآن و حدیث، فقہ اور عربی ادب میں تعلیم حاصل کی تھی، درسِ نظامی اور حفظِ قرآن کی اسناد رکھتے تھے۔دوران طالب علمی حافظ حسین احمد جے یو آئی کی طلبہ تنظیم کا حصہ رہے۔ باقاعدہ سیاست کا آغاز 1973 میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے کیا۔حافظ حسین احمد جے یو آئی میں کئی صوبائی اور مرکزی عہدوں پر رہے۔ انہوں نے مرکزی نائب صدر، مرکزی سیکریٹری جنرل، مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور مرکزی ترجمان جیسے اہم پارٹی عہدوں پر بھی کام کیا۔وہ دو مرتبہ قومی اسمبلی اور دو بار سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ 1988 میں پہلی بار اور 2002 میں دوسری بار مستونگ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2002 کی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس دوران پارلیمانی سیاست میں نمایاں نام رہے۔حافظ حسین احمد تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی، قومی اتحاد، تحریک بحالی جمہوریت سمیت جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے چلنے والی کئی تحریکوں میں فعال رہے اور متعدد بار جیل بھی گئے۔2006 میں حقوق نسواں بل کی منظوری کے خلاف حافظ حسین احمد نے پارٹی پالیسی کے برعکس ذاتی طور پر احتجاجاً استعفا دے دیا تھا۔

اسی دوران ان کے پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمان سے تعلقات میں کشیدگی آ گئی جو ان کی زندگی کے آخری برسوں تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔حافظ حسین احمد کے قریبی ساتھی صحافی زاہد حسین رند کے مطابق’ حافظ حسین احمد ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ وہ اپنی رائے کو کھل کر بیان کرتے تھے اور مولانا فضل الرحمان پر بھی تنقید سے باز نہیں آتے تھے۔‘زاہد حسین کے مطابق’ اپنے اس مزاج کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار بھی رہے یہاں تک کہ انہیں کئی بار پارٹی سے نکالا بھی گیا۔‘حافظ حسین احمد پارٹی کے اندر پالیسیوں اور ’آمرانہ طریقوں‘ پر سوالات اٹھاتے تھے۔

وہ پارٹی میں موروثیت کے خلاف اور شفاف انتخابات کے حامی تھے۔ انہوں نے پارٹی کو فضل الرحمن سے منسوب کرکے جے یو آئی (ایف ) کے نام سے رجسٹریشن کرانے پر بھی اختلاف کیا۔2020 میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جب نواز شریف نے فوجی قیادت پر تنقید کی تو حافظ حسین احمد نے مخالفانہ بیان دیا۔

انہوں نے نواز شریف سے اتحاد پر پارٹی قیادت پر بھی تنقید کی جس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے انہیں پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے عہدے سے ہٹایا اور پھر رکنیت بھی ختم کر دی۔اس کے بعد حافظ حسین احمد مولانا محمد خان شیرانی اور جے یو آئی کے فضل الرحمان مخالف رہنماؤں کے ساتھ مل کر محاذ کھولا تاہم جب مولانا محمد خان شیرانی نے الگ جماعت بنائی تو حافظ حسین احمد نے ان سے راہیں جدا کرلیں۔2022 میں بالآخر مولانا فضل الرحمان نے کوئٹہ آکر انہیں منایا تاہم انہیں 2024 کے انتخابات میں ٹکٹ اور نہ ہی پارٹی میں کوئی عہدہ دیا۔زاہد حسین رند نے بتایا’ حافظ حسین احمد پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اختلاف رائے کے قائل تھے۔ ان کی ہمیشہ ترجیح پارٹی رہی اس لیے اختلافات اور کئی بار نکالے جانے کے باوجود وہ اپنی موت تک جے یو آئی سے جڑے رہے۔‘حافظ حسین احمد گفتگو اور مکالموں میں کاٹ دار جملوں، حاضر جوابی اور برجستگی کے لیے جانے جاتے تھے۔ اسی طرح  قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنے جداگانہ انداز کی وجہ سے بھرپور توجہ حاصل کرتے تھے۔حافظ حسین احمد کے والد مولانا عرض محمد بلوچستان کی پہلی سیاسی تنظیم نیشنل پارٹی کا بھی حصہ رہے۔ وہ ریاست قلات کے پارلیمان دار العوام کے رکن رہے،ان کے والد نے قبائلی رسومات اور سرداروں کے ٹیکسوں کے خلاف جدوجہد کی جس پر انہیں جلاوطن بھی کیاگیا۔سابق پارلیمنٹرین کی وفات پر مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی رہنماؤں نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی و سیاسی خدمات کو سراہا ہے۔

جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سینیئر سیاستدان حافظ حسین احمد کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا ’ حافظ حسین کے انتقال سے حسین یادوں کا ایک باب بند ہوگیا۔ جوانی سے بڑھاپے تک ایک ہی کاز کےلیے ایک ہی پلیٹ فارم سے جدوجہد کی۔‘

انہوں نے مزید کہا’ حافظ حسین احمد ایک زیرک،حاضر جواب، نظریاتی سیاستدان اور پارلیمانی رہنما تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More