Irfan Siddique

Irfan Siddique Urdu Poetry Shayari

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

وہ مرحلہ ہے کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے

جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں
پیادگاں کو ظفر یاب دیکھنے کے لیے

کہاں ہے تو کہ یہاں جل رہے ہیں صدیوں سے
چراغ دیدہ و محراب دیکھنے کے لیے
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

چمک رہا ہے افق تک غبار تیرہ شبی
کوئی چراغ سفر پر روانہ ہو گیا ہے

ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے

غرض کہ پوچھتے کیا ہو مآل سوختگاں
تمام جلنا جلانا فسانہ ہو گیا ہے

فضائے شوق میں اس کی بساط ہی کیا تھی
پرند اپنے پروں کا نشانہ ہو گیا ہے

کسی نے دیکھے ہیں پت جھڑ میں پھول کھلتے ہوئے
دل اپنی خوش نظری میں دوانہ ہو گیا ہے