Mirza Ghalib Urdu Poetry Shayari

Mirza Ghalib Urdu Poetry Shayari - MIrza Ghlaib is a poet known for unfearing and unpredictable styl of poetry which was both witty and courageous. APart from challenging the status quo, his poems explored the concept of love and loss with his own unique perspective, questioned life and death and everything about everyday life happening in between. The inspiration of Mirza Ghalib’s poetry came from his tough financial struggles, political turmoil and failure in love, he found the best way to express his grief and feeling was poetry and such was the poetry that it continues to inspire generations in Pakistan and other countries as well. Some famous works of Ghalivb include Hazaron Khuwahishein which captures the human greed of endless desires and ambitions perfectly and how not being able to achieve it results in frustration. Another famous work is Dil e Nadan which is a timeless classic exploring love and longing beyond boundaries.

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقت بیداد انتظار نہیں ہے

دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے

گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر
خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے

دل سے اٹھا لطف جلوہ ہائے معانی
غیر گل آئینۂ بہار نہیں ہے

قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے
وائے اگر عہد استوار نہیں ہے

تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
بہار
اگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
زندگی اپنی جب
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
صحرا کو بڑا عالم ھے اپنی تنہائی پر غالب
صحرا کو بڑا عالم ھے اپنی تنہائی پر غالب
اس نے دیکھا نہں عالم میری تنہائی کا
غالب
عشق نے نکما بنا دیا غالب ورنہ
ہم بھی بھڑے کام کے آدمی تھے
خواب
دیکھتا ہوں اُسے تھی جس کی تمنا مجھ کو
آج بیداری میں ہے خواب ذلیخا کامجھے پھر
گرمی سہی کلام میں مگر نا اتنی سہی
گرمی سہی کلام میں مگر نا اتنی سہی
کی جس سے بات اسنے شکایت ضرور کی
گرمی سہی کلام میں مگر نا اتنی سہی
گرمی سہی کلام میں مگر نا اتنی سہی
کی جس سے بات اسنے شکایت ضرور کی
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہم زانوئے تامل و ہم جلو گاہِ گل
ہم زانوئے تامل و ہم جلو گاہِ گل
آئینہ بندِ خلوت و محفل ہے آئینہ
انسان کی خواھش
بڑی عجیب ھے نادان دل کی خواھش یا رب
عمل کچھ نھیں اور دل طلب گار ھے جنت کا
زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسد
زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
ہو گئی ہے‘ غیر کی شیریں بیانی‘ کارگر
ہو گئی ہے‘ غیر کی شیریں بیانی‘ کارگر
عشق کا‘ اس کو گماں‘ ہم بے زبانوں پر نہیں