’امرغان ساحر حسن سے منشیات لیتا تھا‘: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں پولیس کی ابتدائی تفتیش میں نئے انکشافات

بی بی سی اردو  |  Feb 24, 2025

Getty Imagesفائل فوٹو

کراچی میں پولیس کو ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ مصطفیٰ عامر کے قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان قریشی مبینہ طور پر اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن سے منشیات لیتا تھا اور اس کے گھر سے ملنے والا لڑکی کا ڈی این اے اس کی ملازمہ کا تھا۔

کراچی پولیس کے ڈی آئی جی مقدس حیدر نے بی بی سی کو ابتدائی تحقیقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کا دعویٰ ہے کہ انھیں ساحر حسن اور ارمغان کی ملازمہ کا مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملوث ہونے سے متعلق تاحال کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔

سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے انسپکٹر آفتاب عباسی کی مدعیت میں ایس آئی یو تھانے میں ملزم ساحر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انھیں اطلاع ملی کہ خيابان راحت میں ایک شخص موجود ہے جو منشیات سپلائی کرتا ہے۔ خفیہ اطلاع پرایس آئی یو نے چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کر لیا اور ملزم کے قبضے سے ویڈ کے 5 پیکٹ برآمد کیے گئے ہیں۔'

کراچی کی مقامی عدالت نے اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کو مزید ایک روز کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے، ان پر منشیات فروشی کا الزام ہے۔

ساحر حسن نے بی بی اے کیا ہے دو ماہ قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی، پولیس نے انہیں دو روز قبل گرفتار کیا تھا۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ ساحر حسن کا مصطفیٰ عامر کے قتل کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم امرغان اس سے ویڈ لیتا تھا، شہر میں منشیات فروشوں کے خلاف جو کارروائیاں جاری ہیں اس میں ہی اس کو گرفتار کیا گیا ہے۔'

ڈی آئی جی مقدس حیدر نے بتایا کہ 'تحقیقات کے دوران وہ اس لڑکی تک پہنچ گئے تھے، اس سے تفتیش بھی کی گئی تھی تاہم اس کا مصطفیٰ عامر کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ چند روز پہلے آئی تھی اس کے دوران اس کا ارمغان سے کوئی تکرار ہوا تھی۔'

ڈی آئی جی مقدس حیدر نے مزید بتایا کہ 'وہ لڑکی ارمغان کے کال سینٹر میں کام کرتی تھی اور یہ کال سینٹر غیر قانونی تھا۔ جب شہر میں ان کال سینٹروں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تو انھوں نے اس کو بند کردیا تھا، اس کال سینٹر کے ذریعے سکیمنگ کی جاتی تھی۔'

یاد رہے کہ مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہوئے تھے اور پولیس نے ان کی تلاش میں ان کے ایک دوست اور واقعے میں ملوث ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔

Getty Imagesفائل فوٹو

پولیس کے مطابق 23 سالہ مصطفیٰ عامر کی لاش بلوچستان سے ملی جنھیں مبینہ طور پر اغوا کرنے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں حب کے علاقے دہریجی سے مصطفیٰ کی جھلسی ہوئی گاڑی اور اس کے اندر سے ان کی لاش ملی تھی۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر نے واضح کیا کہ جو ارمغان کے گھر سے آٹومیٹک جدید گن ملی ہے 'وہ امریکی میڈ ہے، اس کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن لگتی یہ اوزی گن جیسی ہے۔'

دوسری جانب عامر مصطفیٰ کی لاش اتوار کو ورثا کے حوالے کی گئی اور اس کی تدفین کر دی گئی ہے۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق مصطفیٰ عامر کا ڈی این اے ان کی والد وجیہ عامر سے میچ ہونے کے بعد لاش ان کے حوالے کی گئی تھی۔

مصطفیٰ کی گمشدگی کا مقدمہ ان کی والدہ وجیہہ عامر کی مدعیت میں کراچی کے درخشاں تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں وجیہہ عامر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا چھ جنوری شام ساڑھے سات بجے اپنی کار لے کر گھر سے نکلا تھا جو واپس نہیں آیا۔

وجیہہ عامر نے واقعے کی ایف آئی آر میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر بیٹے کی تلاش اور معلومات حاصل کی لیکن کوئی پتہ نہیں چل سکا۔

ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کی کال ایک امریکی نمبر والی سم سے موصول ہوئی جس کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں منتقل ہوا اور تحقیقات سی آئی اے کے پاس آئی۔

ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کے مبینہ قتل میں ملوث ملزم جسے گرفتار کیا گیا ہے وہ ان کا دوست ارمغان ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ 'ملزم نے ساتھی کے ساتھ مل کر گاڑی کو آگ لگائی تھی۔'

نور مقدم کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیاگن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانیمیاں بیوی کے ’اندھے قتل‘ کی واردات جس نے لاہور پولیس کو چکرا رکھا ہےریمنڈ ڈیوس: لاہور میں دن دیہاڑے دو قتل کرنے والا ’کنٹریکٹر‘ جسے 24 لاکھ ڈالر کے عوض رہائی ملیپولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

ڈی آئی جی سی آئے اے مقدس حیدر نے بتایا کہ سی آئی اے پولیس نے آٹھ فروری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفیٰ عامر کے دوست اور واقعے کے ملزم ارمغان کے گھر پر شک کی بنیاد پر چھاپا مارا۔ اس دوران پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی اور اس کارروائی کے دوران ایک ڈی ایس پی سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ تاہم پولیس ارمغان کو حراست میں لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ملزم ارمغان کے گھر کے بکھرے ہوئے سامان سے مصطفیٰ عامر کا موبائل ملا جو مقدمے کی تفتیش میں اہم کڑی ثابت ہوا۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق 'بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ موبائل شاید ان کے درمیان مبینہ ہاتھا پائی کے دوران گر گیا تھا۔'

پولیس کے مطابق ارمغان کے گھر کے قالین پر موجود خون کے دھبے سے ڈی این اے لیے گئے تھے جو سندھ فارنزک اینڈ سیرلوجی لیبارٹی کو بھیجے گئے۔

پولیس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کراچی میں مصطفی عامر کے اغوا اور مبینہ قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم ارمغان کے گھر سے مصطفیٰ کے ساتھ ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔

بی بی سی کے پاس موجود ڈی این اے رپورٹ کے مطابق قالین سے ملنے والے ایک ڈی این اے کی میچنگ عامر مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر کے ڈی این اے سے کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ڈی این اے وجیہہ کے حقیقی بیٹے کا نہیں ہے۔

قالین کے دو حصوں سے ملنے والے خون کے دہلوں سے ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔ اس کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی انیل حیدر نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ 'ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے ملا ہے، جس کی تلاش کی جارہی ہے۔'

ایس ایس پی انیل حیدر نے یہ بھی بتایا کہ واقعے کے بعد ارمغان اور شیراز کراچی چھوڑ گئے تھے اور چند روز قبل ہی واپس لوٹے تھے۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ 'مصطفی چھ جنوری کی شب ارمغان کے گھر آئے جہاں دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور ملزم ارمغان نے طیش میں آ کر مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں دوران تفتیش میں اب تک جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق مصطفیٰ پر شدید تشدد کے بعد انھیں اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب میں دریجی تھانے کے قریب لے جایا گیا جہاں گاڑی سمیت اسے آگ لگا دی گئی۔'

مقدس حیدر کے مطابق اس واقعے میں گرفتار ملزم شیراز کے بیان کی تصدیق ارمغان کے دو ملازمین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔

اس کے علاوہ سی آئی اے پولیس نے گاڑی کو حب لے جانے کے راستے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جس میں گاڑی کی شناخت ہوئی۔ اس کے علاوہ دریجی تھانے میں ایک نامعلوم گاڑی جلنے کی ایف آئی آر پہلے سے درج تھی۔ بلوچستان پولیس نے لاش کو ایدھی کے حوالے کیا تھا جنھوں نے اس کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا تھا۔

ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے بتایا کہ اس واقعے کی مزید تفتیش کے لیے قبر کشائی کرکے لاش کا ڈی این اے تجزیہ کیا جائے گا جس سے مزید تصدیق ممکن ہو سکے گی۔

مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزمان پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، مرکزی ملزم کے عدالت میں پولیس پر الزاماتمیاں بیوی کے ’اندھے قتل‘ کی واردات جس نے لاہور پولیس کو چکرا رکھا ہےگن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانیریمنڈ ڈیوس: لاہور میں دن دیہاڑے دو قتل کرنے والا ’کنٹریکٹر‘ جسے 24 لاکھ ڈالر کے عوض رہائی ملیراولپنڈی: خاتون کے اغوا کا مقدمہ جس کا اختتام قتل کی لرزہ خیز واردات پر ہوانور مقدم کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More